اسلام آباد : سینئیر صحافی و تجزیہ کار سلیم صافی نے موجودہ سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ سمجھ گئے کہ دھمکیوں اور روٹھ جانے کی پالیسی سے کام نہیں چلے گا۔چنانچہ انہوں نے معافیاں مانگنی شروع کردیں۔ برینفنگز کے نام پر ان کے ہاں حاضریاں بھی لگوائیں اور گھر پر دعوتوں کا اہتمام بھی کیا۔ اپنے حالیہ کالم میں سلیم صافی کا کہنا تھا کہ مختصراً یہ کہ انہوں نے صرف رجوع کر لیا ہے بلکہ اب کی بار زیادہ مدح سرائی کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے ترجمانوں کی زبانیں ایک بار پھر دراز ہوگئی ہیں۔ ’’وہ سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ دینے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید احمد کی پیش گوئیوں اور دھمکیوں کا سلسلہ بھی دوبارہ زور پکڑ گیا ہے
اور پی ٹی آئی کے فصلی بٹیروں کا اپوزیشن کی صفوں کی طرف پرواز کا سلسلہ بھی وقتی طور پر رُک گیا ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کی گھبراہٹ ختم نہیں ہورہی۔ انہوں نے انٹیلی جنس بیورو کے ایک ایک اہلکار کا جینا حرام کردیا ہے۔ ان سے ان لوگوں کی بھی سخت نگرانی کروائی جارہی ہے جن سے معافیاں مانگ رہے ہیں۔دم درود اور جھاڑ پھونک کا سلسلہ بھی بڑھا دیا ہے۔ حالانکہ سرِدست اپوزیشن کی صفوں میں اعتماد نظر آتا ہے اور نہ وہ ان کو ہٹانے کے لیے کوئی لائحہ عمل بناسکی ہے۔ تو پھر اس گھبراہٹ کی وجہ کیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ گذشتہ برسوں میں ان کی خاطر میڈیا کو کسی اور جگہ سے مثبت رپورٹنگ کی ہدایات ملتی تھیں لیکن اب میڈیا ان کے میڈیا منیجروں کو خود مینج کرنا پڑرہا ہے۔ پہلے ان کے لیے الیکشن کمیشن کسی اور جگہ سے کنٹرول کیا جاتا تھا لیکن اب یہ ذمہ داری ان کے کاندھوں پر آگئی ہے۔ پہلے ان کے لیے عدلیہ پر دبائو کہیں اور سے ڈالا جاتا تھا لیکن اب انہیں عدلیہ سے خود نمٹنا پڑرہا ہے۔ اسی طرح وہ شہباز شریف کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ لوگ ان کو گرفتار کروانے میں گزشتہ برسوں کی طرح اپنا حصہ ڈالنے کو تیار نہیں۔
وہ جہانگیر ترین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ان کا جہاز کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف پرواز کرتا پھررہا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ جو لوگ یہ کام کیا کرتے تھے ان کے ادارے کو بحیثیت ادارہ احساس ہوگیا کہ اس نظام کو لانے اور چلانے کے لیے جو کچھ کیا گیا، اس کی وجہ سے اس کا وقار مجروح ہوا اور اِس سلسلے کو اسی شدت کے ساتھ اگر مزید جاری رکھا جاتا ہے تو ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔ اس لیے وہ مزید فریق اور سرپرست نظر نہیں آنا چاہتا لیکن عمران خان کو رُخصت کرنے کا کوئی منصوبہ بنایا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو کوئی اسکرپٹ دیا ہے۔ وہ عمران کو یہ یقین دلارہا ہے کہ ان کی رخصتی کا ان کا کوئی منصوبہ نہیں اور اپوزیشن کو یہ باور کرارہا ہے کہ وہ غیرجانبدار اور اپنے آئینی رول تک محدود ہوگیا ہے لیکن عمران خان کو چونکہ ماضی جیسی سرپرستی نہیں مل رہی اس لیے وہ شک کررہا ہے کہ مجھے رخصت کیا جارہا ہے اور چونکہ اپوزیشن کو باقاعدہ اسکرپٹ نہیں مل رہا، اس لیے وہ بھی شک کررہی ہے کہ اس نے بدستور عمران خان کے سر پردستِ شفقت رکھا ہوا ہے۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے کون سی مہنگی گاڑیاں خرید رکھی ہیں؟ تفصیلات سامنے آگئیں