مشکل ہے کہ اب شہر میں نکلے کوئی گھر سے دستار پہ بات آ گئی ہوتی ہوئی سر سے برسا بھی تو کس دشت کے بے فیض بدن پر اک عمر مرے کھیت تھے جس ابر کو ترسے کل رات.
چلو اب غور کر لیتے ہیں شائد کُچھ سُنائی دے محبّت ہر قدم کم ظرف لوگوں کی دُہائی دے لِکھی ہے میں نے عرضی اِس عِلاقے کے وڈیرے کو مِرا لُوٹا ہؤا سامان واپس مُجھ کو بھائی دے کہا بھائی.
لبوں پہ دعا ھے سدا یہ خدا سے سلامت رھے وطن ہر اک بلا سے نیا دن نیا سال اس کی جبیں پر چمکتا رھے بن کے سورج حسیں تر مبارک نئے سال کی ہر کرن ھو منور در وبام.