اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کا حلف نامہ جوڈیشل ریکارڈ کا حصہ نہیں۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے نواز شریف اور مریم نواز کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں سے متعلق خبر پر سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، صحافی انصار عباسی ، خبر شائع کرنے والے اخبار کے چیف ایڈیٹر اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے خلاف توہین عدالت کیس پر سماعت کی۔ سماعت سے قبل رانا شمیم کے بیٹے نے عدالتی عملے سے کمرہ عدالت میں ویڈیو چلانے کی اجازت مانگ لی۔سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے خبر شائع کرنے والے اخبار کے چیف ایڈیٹر کو روسٹرم پر بلا کر ریمارکس دیئے کہ آزادی اظہار رائے بھی بہت ضروری ہے لیکن انصاف کی فراہمی بھی اہم ہے، آپ کی رپورٹ نے لوگوں کے حقوق کو متاثر کیا ہے، اگر مجھے اپنے ججز پر اعتماد نا ہوتا تو یہ سماعت شروع نہ کرتا،
الیکشن کمیشن کے خلاف بیانات کا معاملہ ، فواد چودھری نے پیش ہو کر معذرت کرلی
میں نے سماعت اس لیے شروع کی کیونکہ ہم بھی احتساب کے قابل ہیں، اس عدالت کے ہر جج نے کوشش کی کہ عوام تک انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے ، اگر عوام کا اعتماد عدلیہ پرنا ہو تو یہ بہت الارمنگ ہے، آپ ایک بڑے میڈیا ہاؤس اور اخبار کے مالک ہیں، اگر کوئی حلف نامہ کہیں بھی دے دے تو کیا آپ اس کو پہلے صفحے پر چھاپ دیں گے؟۔دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی انصار عباسی سے استفسار کیا کہ یہ حلف نامہ تو جوڈیشل ریکارڈ کا بھی حصہ نہیں، 6 جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہوئی ، 16 جولائی کو اپیلیں فائل ہوئیں ، میں اور جسٹس عامر فاروق اس وقت بیرون ملک چھٹی تھے، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے سامنے کیس مقرر ہوا، اپیلوں کی پیروی خواجہ حارث کررہے تھے، کیا آپ نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ الیکشن سے پہلے کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کی انہوں نے کوئی درخواست کی تھی؟، خواجہ حارث جانتے تھے کہ اسی روز سزا معطل ہو ہی نہیں سکتی ، عدالت نے سب سے جلدی کی تاریخ 31 جولائی کی دی کیونکہ ان دنوں چھٹیاں تھیں، جس جج کا نام آپ نے لکھا نہیں اور عدلیہ پر سوال اٹھا ہے، لوگوں کا عدالت پر اعتماد تباہ کرنے کے لیے باتیں بننا شروع ہو گئیں، کیا اس عدالت کا جج کہیں سے ہدایات لیتا ہے؟۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ میری عدالت کے جج کے گھر یا چیمبر میں کوئی رسائی لے رہا ہے تو میں اس کا جواب دہ ہوں، اگر رانا شمیم یا انصار عباسی ثبوت لے آئیں تو میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف کارروائی کروں گا۔