Saturday April 20, 2024

سخت ردعمل کے بعدحکومت کی بڑی کامیابی ۔۔ ملک نے انتخابات کا پورانظام ہی تبدیل۔۔ اب ووٹنگ کیسے ہوگی۔۔؟آج کی سب سے بڑی خبر

اسلام آباد: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس، انتخابات ترمیمی بل 2021ء پیش کرنے کی تحریک منظور۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے جس میں حکومت انتخابی اصلاحات، الیکٹرانک ووٹنگ مشین، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور کلبھوشن یادیو سے متعلق بل سمیت 27 بلز منظور کرانے کی کوشش کرے گی جب کہ اپوزیشن بھی ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ ایجنڈا شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے شور شرابہ کیا اور نو نو کے نعرے لگائے۔بابر اعوان نے انتخابی اصلاحات بل منظوری کیلئے پیش کر دیا تاہم انہوں نے اس پر رائے شماری کرانے کی بجائے کہا کہ انتخابی اصلاحات بل موخر کیا جائے اور اپوزیشن کو اس پر بات کی اجازت دی جائے۔ اس کے بعد اپوزیشن رہنماؤں نے اجلاس میں اظہار خیال شروع کیا۔اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر صاحب اگر آپ اپنی پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفی دیں تو آپ کو کندھوں پر بٹھائیں گے، حکومت اور اس کے اتحادی آج اس ایوان سے جن قوانین کو منظور کرانا چاہتے ہیں،

’ہم آئے نہیں، لائے گئے ہیں‘ تحریک انصاف کے رہنماء عامر لیاقت حسین نے انتہائی حیران کن بات کہہ دی

اس کا سب سے بڑا بوجھ اسپیکر کے کندھوں پر ہے، حکومت ای وی ایم شیطانی مشین سے اقتدار کو طول دینا چاہتی ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پارلیمنٹ شفاف انتخابی اصلاحات لانا چاہتی ہے، ہم کالا قانون نہیں لانا چاہتے بلکہ ماضی کی کالک کو دھونا چاہتے ہیں، الیکٹرانک ووٹنگ مشین شیطانی مشین نہیں ہے بلکہ یہ ماضی کے شیطانی منصوبوں کو ختم کرنے کیلئے لائی جا رہی ہے۔بلاول بھٹو کو مائیک نہ دینے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا اور مائیک دینے کا مطالبہ کیا۔ پی پی رکن قادر مندوخیل کی اسپیکر سے تلخ کلامی ہوئی اور اسپیکر ڈائس پر نامناسب گفتگو کی۔ اسد قیصر غصے میں آگئے اور بولے کہ آپ تمیز سے رہیں ورنہ میں باہر نکلوادوں گا، آپ کی کیا اوقات ہے، میں بلاول کو موقع دے رہا تھا پھر یہ بدتمیزی کیوں کی، میں آپ کو معطل کردوں گا۔ اسپیکر اسد قیصر نے بلاول بھٹو کو مائیک دیتے ہوئے کہا کہ بلاول صاحب آپ کے رکن کا رویہ ناقابل برداشت ہے۔ اسپیکر ڈائس کے سامنے سارجنٹ ایٹ آرمز نے سیکیورٹی سنبھال لی۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو نہیں مانتے، ہم الیکشن کمیشن کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، الیکشن کمیشن کے تحفظات ہمارے تحفظات ہیں، حکومت انتخابات کو متنازع بنانا چاہ رہی ہے، حکومت کی قانون سازی کو چیلنج کرینگے اور عدالت میں شکست دینگے، اگر آپ ہم سے مشاورت کرلیتے تو آئندہ آنے والا الیکشن متنازعہ نہ ہوتا، اگر آپ نے بل منظور کروا لیا تو ہم آج سے ہی اگلے الیکشن کے نتائج نہیں مانتے، ہم کلبھوشن یادیو کو ریلیف دینے پر آپ کا ساتھ نہیں دیں گے۔جے یو آئی (ف) کے اسعد محمود نے کہا کہ ملک میں افراتفری اور ہنگاموں کی بنیاد ڈالی جارہی ہے ، اگر یکطرفہ قانون سازی ہوتی ہے اور اس بنیاد پر افراتفری ہوگی تو اس کی ذمہ داری آپ پر اور حکومت و سپورٹرز پر ہوگی ، انتخابی نتائج پر ہمیشہ دنیا میں سوال اٹھتے ہیں، ہم متحمل نہیں ہوسکتے کہ جیسے پہلے ملک دو لخت ہوا ، پھر افراتفری ہو ۔اسی دوران وزیراعظم عمران خان ایوان میں آئے۔ انہوں نے ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہوئی تھی۔ حکومتی اراکین نے ڈیسک بجاکر ان کا استقبال کیا۔

راولپنڈی ایکسپریس کھیل کے میدان میں  دوبارہ کودنے کو تیار؟ مداحوں کو اشارہ دیدی

محسن داوڑ نے کہا کہ افسوس کی بات ہے آج علی وزیر ایوان میں نہیں ہیں اور وزیرستان کی نمائندگی نہیں ہو رہی۔ محسن داوڑ نے انتخابی ترمیمی بل دوسری ترمیم میں اپنی ترمیم پیش کی جس کی بابر اعوان نے مخالفت کردی۔اجلاس میں الیکشن ایکٹ دوسری ترمیم کا بل پیش کرنے کی تحریک پر ووٹنگ کرائی گئی تو تحریک کے حق میں 221 اور مخالفت میں 203 ووٹ پڑے۔ اس طرح ارکان کی سادہ اکثریت سے تحریک منظور کرلی گئی اور حکومت نے اپوزیشن کو 18 ووٹوں سے شکست دے دی جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی عددی برتری ثابت ہوگئی۔آج اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر ڈینگی کا شکار ہونے کے باعث حاضر نہ ہوئے، مسلم لیگ ن کی شائستہ پرویز ملک شوہر کی رحلت کے باعث عدت میں تھیں تاہم انہوں نے اجلاس میں شرکت کی ہے۔ جیل میں قید آزاد رکن علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے کی وجہ سے حاضر نہ ہوئے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اپنے بھائی کے انتقال کے باوجود اجلاس میں شریک ہوئے۔ایوان میں حکومت کو 228 ارکان جب کہ متحدہ اپوزیشن کو 212 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو ق لیگ، ایم کیو ایم، بی اے پی اور شیخ رشید سمیت 180 ارکان کی حمایت حاصل ہے، اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم ایم اے سمیت 161 ارکان کی حمایت حاصل ہے، سینیٹ ارکان میں اپوزیشن اتحاد کو 51 جب کہ حکومتی اتحاد کو 48 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

وفاداری ثابت کرنے کیلئے نوجوان نے اپنے دانتوں کا ہار بناکر محبوبہ کو پیش کردیا

FOLLOW US