آٹھ اپریل 1993 کو پاکستانی کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کے دورے کے سلسلے میں باربیڈوس سے گرینیڈا پہنچی تو ہر چیز معمول کے مطابق تھی۔ گرینیڈا میں پاکستانی ٹیم کو انڈر 23 ٹیم کے خلاف سہ روزہ میچ کھیلنا تھا۔ٹیم ائیرپورٹ سے کویابا بیچ ہوٹل پہنچی۔ ہوٹل پہنچنے کے بعد کپتان وسیم اکرم، وقاریونس، عاقب جاوید اور مشتاق احمد ہوٹل کے ریستوران میں موجود تھے۔ غالباً وہ اپنے کمروں کی چابیاں ملنے کے منتظر تھے۔ وہاں بیٹھی ایک انگریز خاتون نے کھلاڑیوں کو پہچانتے ہوئے اُن سے آٹوگراف بھی لیے۔اُس وقت کسی نے بھی نہیں سوچا ہو گا کہ سورج غروب ہونے کے بعد گرینیڈا کے ساحل پر ایک ایسا واقعہ رونما ہونے والا ہے جو پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے کرکٹ حلقوں میں ہلچل مچا دے گا۔یہ غالباً رات کے سوا دس بجے کا واقعہ ہو گا
وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر میں اتوار کو پر امن احتجاج کی کال دے دی
جب یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ پاکستانی ٹیم کے چار کرکٹرز کپتان وسیم اکرم، نائب کپتان وقار یونس، مشتاق احمد اور عاقب جاوید کو پولیس گرفتار کر کے تھانے لے گئی ہے۔لیکن کس جرم میں اور ان کرکٹرز نے آخر کیا کیا تھا؟کرکٹرز ساحل پر کیا کر رہے تھے؟اس دورے میں موجود سینیئر صحافی قمراحمد نے اپنی کتاب ’شو ڈاؤن‘ میں اس واقعے اور اس کے بعد پیش آنے والی صورتحال کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔قمراحمد لکھتے ہیں کہ ’چاروں پاکستانی کرکٹرز ساحل پر بیٹھے تھے۔ اُن کے ہوٹل کے کمرے اس جگہ سے چند گز کے فاصلے پر ہوں گے۔ اُن چاروں کے قریب ایک پارٹی بھی ہو رہی تھی۔ ساحل پر موجود کئی لوگوں نے پاکستانی کرکٹرز کو پہچان بھی لیا تھا۔ ساحل پر موجود افراد میں دو انگریز خواتین، 38 سالہ جواین کاخلین اور 42 سالہ سوزن روز بھی تھیں جو اِن چاروں پاکستانی کھلاڑیوں میں سے کسی ایک کھلاڑی کی دعوت پر اُن کے ساتھ گپ شپ کرنے بیٹھ گئی تھیں۔ یہ دونوں خواتین آفس سیکریٹری تھیں اور تعطیلات منانے وہاں آئی ہوئی تھیں۔‘قمراحمد مزید لکھتے ہیں کہ ’میں نے جو معلومات پولیس افسر سے حاصل کیں اُن کے مطابق پولیس والے ساحل پر گشت کر رہے تھے۔ ایک مقامی شخص بھی ان کھلاڑیوں اور دونوں خواتین کے قریب موجود تھا۔ پولیس والے جب ان کھلاڑیوں کے قریب آئے تو انھیں ’ماریجوآنا‘ کی بدبو آئی اور انھوں نے اِن کھلاڑیوں سے کہا کہ تم لوگ نشہ آور سگریٹ پی رہے ہو لہذا ہم تمہیں گرفتار کر رہے ہیں۔‘قمر احمد کی کتاب میں تحریر ہے کہ پولیس والوں نے اس موقع پر مقامی شخص کی تلاشی لی۔ سوزن روز کے بیگ کی بھی چھان بین اور تلاشی لی گئی۔
کھلاڑیوں کے ساتھ پولیس اہلکاروں کی بحث تکرار کے دوران وسیم اکرم بینچ پر سے گرِ پڑے اور اُن کی پیشانی سے خون بہنے لگا۔غور طلب بات یہ ہے کہ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا جاوید میانداد ساحل پر اِن چاروں کرکٹرز سے کچھ ہی فاصلے پر موجود تھے اور انھوں نے دیکھا کہ ان کھلاڑیوں کے ساتھ چند مقامی افراد بھی موجود ہیں۔ میانداد نے ساتھی کھلاڑیوں کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا لیکن انھیں اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ بعد میں انھیں یہ بات معلوم ہوئی کہ درحقیقت چاروں کرکٹرز اُس وقت پولیس کی حراست میں تھے۔کرکٹرز کو تھانے لے جایا گیا،چاروں پاکستانی کرکٹرز، دونوں انگریز خواتین اور ایک مقامی شخص اِروین ولسن کو پولیس والوں نے پہلے تو کچھ دیر ساحل پر واقع ’امبریلا سنیک بار‘ میں بٹھائے رکھا اور پھر انھیں اسی حالت میں پیدل سینٹ جارج پولیس سٹیشن لے جایا گیا اور گرفتار شدہ ان تمام افراد کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے ہاتھ پیچھے کر کے گردن پر رکھ دیں۔ اُس وقت تک مقامی میڈیا کو اس واقعے کی اطلاع پولیس کے ذریعے مل چکی تھی۔دونوں خواتین نے بعد میں دیے گئے ایک بیان میں بتایا تھا کہ تھانے میں پولیس افسر کا رویہ انتہائی نامناسب تھا۔ افسر نے اپنی پستول سے گولیوں کا چیمبر نکال کر میز پر رکھا اور کھلاڑیوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا، بعد میں اُس نے اپنی پستول دوبارہ لوڈ کی اور گھمانے لگا اور اس دوران جب ایک انگریز خاتون نے اپنا بازو پولیس افسر کی میز پر رکھا تو وہ چلایا کہ اسے ہٹاؤ ’پولیس کمشنر بھی اس میز کو چھو نہیں سکتا۔‘کھلاڑیوں کی گرفتاری اور انھیں تھانے لے جانے کی اطلاع ملنے پر پاکستانی ٹیم کے منیجر خالد محمود، کوچ مدثر نذر اور جاوید میانداد وہاں پہنچے اور اس موقع پر مقامی وکیل ڈیرک نائٹ اور گرینیڈا کرکٹ کے نمائندے والٹر سینٹ جان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ٹیم منیجر خالد محمود کے شور مچانے پر وسیم اکرم کو طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جایا گیا
جہاں اُن کی زخمی پیشانی پر چار ٹانکے آئے، اور طبی امداد کے بعد انھیں دوبارہ تھانے لایا گیا۔کرکٹرز پر الزامات کیا تھے؟پولیس نے کرکٹرز اور دونوں خواتین کو جس الزام کے تحت گرفتار کیا تھا وہ یہ تھا کہ نشہ آور مواد اُن کے قریب سے برآمد ہوا تھا۔ ایک پولیس افسر نے سگریٹ کا ایک پیکٹ دکھاتے ہوئے دعوٰی کیا کہ یہ ریت پر سے ملا ہے۔ کھلاڑیوں نے نشہ آور شے استعمال کرنے کی تردید کی جبکہ دونوں خواتین کا کہنا تھا کہ یہ وہ سگریٹ کا برانڈ ہی نہیں ہے جو وہ استعمال کرتی تھیں۔کرکٹرز کی ضمانت اور اگلی پیشی،گرینیڈا کرکٹ کے نمائندے والٹر سینٹ جان نے چار پاکستانی کرکٹرز اور دونوں خواتین کی 2400 پاؤنڈ کے عوض ضمانت دی جس کے بعد چاروں کرکٹرز اور دونوں خواتین کو ضمانت پر رہائی ملی اور اُن سے کہا گیا کہ یہ تمام لوگ 13 اپریل کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوں گے۔ ضمانت پر رہائی ملتے ملتے رات کے ڈھائی بج چکے تھے۔’کرکٹرز کو پھنسایا گیا‘اس دورے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے منیجر خالد محمود بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اصل واقعہ صرف اتنا ہے کہ پاکستانی ٹیم کے یہ چاروں کرکٹرز ساحل سمندر پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے اور دو خواتین سیاح بھی اُن کے ساتھ شامل ہو گئی تھیں۔ اُن کے قبضے سے نشہ آور شے کی برآمدگی کی بات بالکل غلط ہے۔ درحقیقت گرینیڈا کی پولیس نے بھی ان پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ چونکہ یہ کرکٹرز وہاں موجود تھے لہذا ان کے قریب سے ماریجوآنا برآمد ہوئی تھی۔‘خالد محمود کہتے ہیں ʹمیں نے گرینیڈا کے وزیراعظم نکولس بریتھ ویٹ سے ملاقات کی تھی اور ان سے یہ سوال کیا تھا کہ اگر آپ کی رہائش گاہ پر آنے والا کوئی بھی شخص نشہ آور شے پھینک کر چلاجائے تو کون پکڑ میں آئے گا؟ انھوں نے پوچھا کہ کون؟ میں نے جواب دیا آپ ذمہ دار قرار پائیں گے کیونکہ آپ کا قانون یہی کہتا ہے۔۔۔
وہ یہ سُن کر حیران رہ گئے تھے۔‘خالد محمود کا کہنا ہے کہ ’میں نے وزیراعظم سے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے کرکٹرز جن کا کرکٹ کی دنیا میں نام ہے وہ اس طرح نشے کی پُڑیا کو جیب میں لیے ساحل پر پھرتے ہوں گے؟‘ ویسٹ انڈیز کے مشہور وکیل کی خدماتصحافی قمر احمدبرطانوی خبررساں ادارے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس صورتحال میں میرے ایک ویسٹ انڈین دوست امرل خان نے مجھے فون کر کے کہا کہ یہ ویسٹ انڈین، پاکستانی کرکٹرز کو غلط مقدمے میں پھنسا سکتے ہیں لہذا اگر وہ چاہیں تو ٹرینیڈاڈ کے تجربہ کار وکیل رمیش لارنس مہاراج کو وہ گرینیڈا لا سکتے ہیں تاکہ وہ اس معاملے میں پاکستانی ٹیم کی قانونی مدد کر سکیں۔‘قمراحمد کہتے ہیں کہ ’میں نے رمیش لارنس مہاراج کے سلسلے میں ٹیم کے منیجر خالد محمود سے بات کی جو ابتدا میں تذبذب کا شکار تھے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری شاہد رفیع کے کہنے پر وہ رمیش لارنس مہاراج کی خدمات حاصل کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ رمیش لارنس مہاراج فوری طور پر ٹرینیڈاڈ سے گرینیڈا پہنچے تھے اور انھوں نے اپنی خدمات بلامعاوضہ پیش کیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ سے کوئی معاوضہ نہیں لیا۔‘کرکٹرز پر عائد الزامات ختم،بارہ اور تیرہ اپریل کو پاکستانی ٹیم منیجمنٹ اور گرینیڈا کے پولیس کمشنر کیتھ فرائیڈے کے درمیان ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں پولیس نے چاروں کرکٹرز، دونوں خواتین اور مقامی شخص کے خلاف نشہ آور شے کی موجودگی کے الزامات کو پہلے رد کرنے اور پھر انھیں یکسر ختم کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ دورہ خطرے سے دوچار گرینیڈا کے اس واقعے کے بعد پاکستانی ٹیم کا دورۂ ویسٹ انڈیز خطرے سے دوچار ہوتا نظر آ رہا تھا۔ٹیم کے منیجر خالد محمود اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کھلاڑی ذہنی طور پر سخت پریشان تھے اور وہ کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں تھے مگر اُن کا مورال بلند کیا گیا۔ چند کھلاڑیوں نے دورہ جاری نہ رکھنے کی ضد دکھائی تو ان سے کہا گیا کہ اگر وہ کھیلنا نہیں چاہتے تو اپنا پاسپورٹ لیں اور پہلی فلائٹ سے واپس چلے جائیں۔ کپتان وسیم اکرم نے اپنی سوانح میں لکھا ہے ʹکھلاڑی ذہنی طور پر اس حالت میں نہیں تھے کہ پہلا ٹیسٹ کھیل سکیں۔ ٹرینیڈاڈ میں ٹیم میٹنگ کے دوران جاوید میانداد اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے کہ ہمیں بطور احتجاج یہ دورہ منسوخ کر دینا چاہیے، لیکن میں اس تجویز کے حق میں نہیں تھا کیونکہ اس سے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے تعلقات متاثر ہو سکتے تھے۔‘ ویسٹ انڈین بورڈ کی معافی پاکستانی ٹیم کے منیجر خالد محمود کہتے ہیں کہ ’ہمیں ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ کے سرد رویے پر سخت غصہ تھا کہ اس نے اس مشکل صورتحال میں ہمیں تنہا چھوڑ دیا تھا۔‘
’میں نے اُن سے مطالبہ کیا کہ جب تک وہ باضابطہ طور پر ہم سے ہمارے کھلاڑیوں کے خلاف جھوٹے کیس اور ان کے ساتھ روا رکھے گئے نامناسب سلوک کی معافی نہیں مانگیں گے، ہم یہ دورہ جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ اس کا اثر یہ نکلا کہ ویسٹ انڈین بورڈ کو اس واقعے پر معافی مانگنی پڑی۔‘ کھلاڑیوں نے سٹوری بیچی اور پیسے کمائے اس تمام واقعے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کھلاڑی ایک طرف تو ذہنی دباؤ اور پریشانی کا رونا رو رہے تھے دوسری جانب خود کپتان وسیم اکرم اور نائب کپتان وقار یونس نے اس واقعے سے متعلق کہانیاں برطانوی اخبارات کو بھاری معاوضے پر فروخت کیں۔ صحافی قمر احمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’وسیم اکرم اور وقار یونس پہلے ٹیسٹ کے لیے پورٹ آف سپین پہنچنے کے بعد ایک برطانوی فوٹوگرافر کے ساتھ ہلٹن ہوٹل کے باہر تصویریں بنوا رہے تھے، بعد میں پتہ چلا کہ انھوں نے انٹرویو بھی دیے ہیں جو برطانوی اخبار ’سن‘ میں شائع ہوئے۔ ان انٹرویوز کے لیے ان کرکٹرز نے بھاری رقوم وصول کیں۔‘ پاکستانی ٹیم کے منیجر خالد محمود کہتے ہیں کہ ’جب یہ بات میرے علم میں آئی تو میں نے ان دونوں کرکٹرز سے پوچھا تھا کہ ایک طرف آپ کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے آپ کو ذہنی طور پر بہت پریشان کر دیا ہے لیکن دوسری جانب آپ نے یہ حرکت کی ہے جس پر ان دونوں کرکٹرز کا جواب تھا کہ ہم کیا کرتے یہ اخبار والے ہمارے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔‘ خالد محمود کا کہنا ہے ’کرکٹرز عام حالات میں انٹرویوز کے پیسے لیتے ہیں، اُس خاص واقعے پر تو ان کرکٹرز کی بڑی پذیرائی ہو رہی تھی، ان کی بڑی ڈیمانڈ تھی لہذا انھیں خاصی بڑی رقم ملی تھی۔‘ وسیم اکرم کے لیے مایوس کن دورہ یہ وسیم اکرم کا پہلا دورہ تھا جس میں وہ ٹیسٹ سیریز میں کپتانی کر رہے تھے لیکن پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ سیریز میں دو صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ خود وسیم اکرم کی کارکردگی مایوس کُن رہی تھی اور وہ صرف نو وکٹیں حاصل کر سکے تھے۔ اس کے برعکس وقار یونس نے سیریز میں 19 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس دورے میں وسیم اکرم کے اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ اختلافات بھی سامنے آئے تھے جس کا ذکر انھوں نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے کہ نائب کپتان وقار یونس سے اُن کی بات چیت برائے نام تھی۔ ’جاوید میانداد کا یہ خیال تھا کہ مجھے جلد ترقی دے دی گئی ہے اور انھیں دوبارہ کپتان ہونا چاہیے۔ ٹیم میٹنگز میں کھلاڑی میری بات سُننے کے بجائے میٹنگ کے ختم ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ غلطیاں دونوں طرف سے تھیں۔ میں بھی پریشان تھا اور پُرسکون رہنے کے بجائے اپنی فرسٹریشن دکھانے کے لیے تیار رہتا تھا۔‘