اسلام آباد: سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا اور کہا فیصلہ 24 فرور ی کو سنایا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں نورمقدم قتل کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں مدعی کے وکیل مدعی کے وکیل نثار اصغر کاعدالت کے سامنے حتمی دلائل کا آغاز تھراپی ورکس کے مالک نے 342 کے بیان میں آن اوتھ بیان کیوں نہ دیا، زخمی امجد نےشکایت کی 6 نومبر کو اسی عدالت نےمسترد کرنیکا فیصلہ سنایا۔- وکیل نے بتایا کہ شوکت علی مقدم کو 10 بج کر 4 منٹ پر آگاہ کیا جا رہا تھا اور 8 بج کر 49 منٹ پر پمز اسپتال میں آرٹی اے لکھوا رہے تھے، امجد زخمی ہونے سے پہلے پرائیوٹ اسپتال گئے، اسپتال والوں نےکہا ہم میڈیکل نہیں کرتے، مدعی کا دباؤہوتا تو اس گھر کو باہر سے کنڈی لگا دیتے ، لوگ آرہے ہیں جا رہے ہیں ہمیں تو نام بھی نہیں پتہ۔
پی ایس ایل ،پلے آف مرحلے سے قبل پشاور زلمی کی ٹیم کو کورونا وائرس نے گھیر لیا
وکیل مدعی نثار اصغر کا کہنا تھا کہ ملزمان کےوکیل کے دلائل تھے کہ ذاکرجعفر،عصمت کی حد تک ثبوت نہیں، والدین خود مانتے ہیں کراچی سے آئے، تین دفعہ تھانے گئے، پولیس کو لائسنس دیا اورپھر پولیس نے انہیں چھوڑ دیا۔ وکیل مدعی نے مزید بتایا کہ وقوعہ عید کے دن ہوا وہ بھی عید الاضحی جس میں تین چھٹیاں ہوتی ہیں، شوکت مقدم عید کی وجہ سے 22 جولائی کو آدھے گھنٹے کے لیے تھانےآیا، سی ڈی آر اور ڈی وی آر وکلاکے پاس تھی۔ نثار اصغر کا کہنا تھا کہ ثابت کر دیں مدعی دس بجے سے پہلے جائے وقوعہ پر تھا ، شوکت مقدم 11 بج کر45 منٹ پرجائے وقوع پہنچا، شوکت مقدم کا بیان ہے قتل کے حوالے سے 10بجے آگاہ کیا گیا ، 11 بج کر 45 منٹ پر پولیس نے بیان لکھا۔
عمران خان کی مودی کو تنازعات کے حل کےلیے ٹی وی پر مباحثے کی پیشکش
وکیل نے بتایا کہ کانسٹیبل اقصی کہتی ہیں دس سوا دس بجے جائے وقوعہ پہنچ گئی تھیں جبکہ کرائم سین انچارج کہتا ہے10 بج کر 30 منٹ پر جائے وقوع پہنچ گیاتھا، 10بجے سے پہلے صرف پولیس اہلکار بشارت رحمان جائے وقوع پہنچا۔ وکیل مدعی کے مطابق تفتیشی افسرکہتا ہے9 بج کر 45 منٹ سے 10بجے کے درمیان اطلاع ملی ، تھراپی ورکس کے ملازمین جائے وقوع پر تھے، ملازمین نے تھراپی ورکس کے چیف ایگزیکٹیو طاہرظہور کوقتل کا بتایا، ملازمین جائے وقوع پر تھے اور تھانہ ڈیڑھ کلو میٹر دور تھا، سب تھانے میں بیٹھ کر کیاگیاہوتوایف آئی آر میں مختلف تحریریں نہیں ہونی چاہییں۔ دوران سماعت مدعی مقدمہ کے وکیل شاہ خاور کے دلائل ختم ہونے پر پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے حتمی دلائل کا آغاز کیا۔
پی سی بی کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر حارث رؤف سے متعلق فیصلہ ہو گیا
پراسیکیوٹر راناحسن نے کہا کہ ڈی وی آر میں سب کچھ نظر آرہا ہے کہ کون پہلے آیا اورکون بعد میں، نکل گلووز پر نورمقدم کا خون لگا ہوا ہے ، ثابت ہوتاہے نورمقدم کو قتل سے قبل ٹارچر کیا گیا۔ راناحسن کا کہنا تھا کہ پنجاب فرانزک لیب نےڈی وی آر منظور کی کہ ایڈیٹنگ نہیں ہوئی، نورمقدم نےجب چھلانگ ماری تو وہ ٹھیک سے چل نہیں پارہی تھی، یہ کہتے ہیں کہ ہاتھ میں موجودموبائل فون کی وضاحت نہیں دی، ڈی وی آر میں نظر آنےافرادخود کہہ رہے ہیں ہم موجود تھے۔ جس پر وکیل اسد جمال نے کہا کہ سپریم کورٹ 2فیصلوں میں ایک ہی بات کہہ چکی ہے، پراسیکیوشن کا کیس تھا ملزمان کی آپس میں گفتگو ہو رہی ہے، سپریم کورٹ نے کال ڈیٹا ریکارڈ کومسترد کر دیا، یہ کہتے ہیں ایس پی دفتر سے ڈیٹا جنریٹ ہوا ، کس رول کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں۔ اسد جمال کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف چارج فریم کیا گیا کہ ہم ملزمان کے ساتھ رابطہ میں تھے،اب ثابت کریں کہ قتل سےمتعلق والدین کو معلوم تھا، سیکشن 94 کال ڈیٹا سمن کے لیے رکھا گیا ، ایس پی کے پاس ڈیٹا موجود ہے تو سیکشن 94 ختم کر دیں، کال ڈیٹاتھرڈ پارٹی نے جنریٹ کیا اس پر فیصلہ کیسے دیا جا سکتا ہے۔
روس یا یوکرین۔۔؟ جنگ کی صورت میں پاکستان کس کا ساتھ دے گا؟ وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ سنا دیا
وکیل نے مزید کہا کہ پرائیویسی سے متعلق بےنظیر بھٹو کا کیس سپریم کورٹ میں آیا تھا، فون ٹیپنگ کا معاملہ تھا آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے، ڈیٹا ریکارڈ حاصل کرنا ہے توپراپر چینل کے ذریعے حاصل کرنا چاہیے۔ اسد جمال نے استدعا کی کہ ہمیں شک کا فائدہ ملنا چاہیے، شوکت مقدم قابل عزت لیکن وہ خود فریق ہیں ، کمرہ عدالت میں کوئی فرشتہ نہیں انسان ہیں۔ ایڈیشنل سیشن جج عطاربانی نے وکلا کے جوابی دلائل کے بعد نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا اور کہا نور مقدم کیس کا فیصلہ 24 فروری کو سنایا جائے گا۔ واضح رہے کہ عید کی رات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے سیکٹر ایف سیون سے ایک سربریدہ لاش ملی تھی، جسے سابق سفیر شوکت مقدم کی 27 سالہ بیٹی نور مقدم کے نام سے شناخت کیا گیا۔ پولیس کے مطابق ملزم ظاہر جعفر نے نور کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا بعد ازاں اس کا سر دھڑ سے الگ کردیا تھا۔