Sunday May 5, 2024

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان کاامریکی صدر جو بائیڈن کا فون سننے سے انکار

واشنگٹن: عرب ممالک اور امریکا کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے خطے میں بڑے واقعات رونما ہونے کا خدشہ ہے عرب اتحاد کے دو اہم ملکوں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان نے امریکی صدر جو بائیڈن سے فون پر بات کرنے سے انکار کر دیاہے. برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنے عربی ایڈیشن میں امریکا کے موقرجدیدے”وال اسٹریٹ جرنل“ کے حوالے سے انکشاف کیاہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے شیخ محمد زاید آل نہیان نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن سے فون پر بات کرنے سے انکار کر دیا ہے.

تحریک انصاف کا 27 مارچ کو ڈی چوک کی بجائے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے کا اعلان، ڈی چوک کی جگہ ویسے بھی کم پڑ جانی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ وائٹ ہاﺅس نے متعدد بار سعودی اور اماراتی سربراہان سے سے صدر بائیڈن کی بات کرانے کی کوشش کی لیکن دونوں راہنماﺅں نے امریکی صدر کی فون کال ریسیو کرنے سے انکار کر دیا. بظاہر کہا جارہا ہے کہ امریکا، یوکرین پر روسی حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے تناظر میں تیل کی عالمی قیمت قابو میں رکھنا چاہتا ہے اور یوکرین کے لئے عالمی حمایت بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے بائیڈن انتظامیہ روسی تیل کی درآمد پر باضابطہ پابندی عائد کرنے کے بعد تیل کی سپلائی بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے جس سے تیل کی قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں، جو 14 سال کی بلند ترین سطح ہے. تاہم امریکی جریدے کا کہنا ہے کہ معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں جتنا انہیں بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاض سمجھتا ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ کا رویہ توہین آمیزہے جبکہ متحدہ عرب امارات کے نزدیک فنانشل ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف )کی گرے لسٹ میں یواے ای کا نام شامل کروانے کا مقصد بلیک میل کرنا اور دباﺅ بڑھنا ہے جو کہ ریاست کے لیے قابل قبول نہیں ہے.

وزیراعظم عمران خان کی ایک نہ چلی، ترین گروپ نے حکومت کو بڑا جھٹکا دیدیا

واضح رہے کہ حال ہی میںایک انٹرویومیں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ امریکی صدر جو بائیڈن ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں لیکن انہوں نے اس بات پر زوردیا کہ واشنگٹن کے ساتھ مضبوط تعلقات برقرار رکھنا الریاض کا مقصد ہے. ان کا کہنا تھاکہ سعودی عرب امریکا سے تعلقات کو برقرار رکھنا اور مضبوط بنانا ہے کیونکہ اس کے ساتھ ہمارے طویل اور تاریخی تعلقات ہیں واضح رہے کہ صدربائیڈن نے خارجہ پالیسی کے اپنے پہلے اقدامات میں سعودی عرب کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہوگئے تھے امریکی صدر نے یمن میں حوثی ملیشیا کے خلاف عرب اتحاد کی جنگی کارروائیوں کی حمایت ختم کردی تھی اور ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کو دہشت گردی کی بلیک لسٹ سے نکال دیا تھا الریاض اور متحدہ عرب امارات کو ہتھیاروں کی فروخت منجمد کر دی اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کوازسرنو وضع اور استوارکرنے کا عزم ظاہر کیا تھا.
سعودی عرب اورامریکا کے درمیان خراب تعلقات کے بارے میں کے بارے میں سوال پر سعودی ولی عہد نے کہا تھا کہ وائٹ ہاﺅس کیا سوچتا ہے مجھے پروا نہیں یہ صدربائیڈن پرمنحصر ہے کہ وہ امریکاکے مفادات کے بارے میں سوچیں سعودی عرب میں امریکی مفادات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکی نہیں ہیں لہٰذا امریکی مفادات کے بارے میں بات کرنا یا اس کا موقف بیان کرناان کا کام نہیں.

مال ان کا کھائو، ووٹ عمران خان کو دو، وفاقی وزیر شیخ رشید کا منحرف ارکان کو مشورہ

FOLLOW US