Sunday November 24, 2024

کیسے ایک پاکستانی نے بل گیٹس سے 100 ملین ڈالر ہتھیائے، مبینہ فراڈ کی حیرت انگیز داستان سامنے آگئی

نیو یارک : دی ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی کی جانب سے بل گیٹس سے مبینہ طور پر 100 ملین ڈالر ہتھیانے کے مبینہ فراڈ کی حیرت انگیز داستان سامنے آگئی۔ تفصیلات کے مطابق امریکی اخبار نیویارک پوسٹ کے ایک آرٹیکل میں انکشاف ہوا ہے کہ ’دی ابراج گروپ‘ کے سربراہ عارف نقوی نے مبینہ طور پر اپنے فنڈز سے تقریبا 780 ملین ڈالر لیے ، جن میں سے 385 ملین ڈالر کا کوئی حساب نہیں ہے ، ایک ملازم نے اس کا بھانڈہ پھوڑ دیا ، اس فراڈ پر اسے ممکنہ طور پر291 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ آرٹیکل میں سائمن کلارک اور ول لوچ کی کتاب The Key Man: The True Story of How The Global Elite was Duped by a Capitalist Fairy Tale کا حوالہ دیا گیا ہے ، جس میں مصنفین نے لکھا ہے کہ نجی ایکویٹی فرم ’دی ابراج گروپ‘ کے سربراہ کی حیثیت سےعارف نقوی کی سرمایہ کاری کے شعبے میں ایک سرخیل کی حیثیت تھی ، جس نے دنیا کے بڑے سرمایہ کاروں سے پیسہ کمانے کی کوشش کی ، جس کے لیے اس نے دنیا کے چند امیر ترین اور طاقتور لوگوں کے ساتھ وقت گزارا ، جن میں بل گیٹس ، بل کلنٹن ، اور اس وقت کے گولڈمین سیچس کے سی ای او لائیڈ بلینکفین بھی شامل ہیں۔

مدرسے میں بچی سے زیادتی کا کیس، راولپنڈی پولیس نے مفتی شاہ نواز احمد کو گرفتار کر لیا

آرٹیکل کے مطابق کتاب میں لکھا گیا ہے کہ بل اور میلنڈا گیٹس جیسے ارب پتی مخیر حضرات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عارف نقوی نے پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے ’امن فاؤنڈیشن‘ کے نام سے 100 ملین ڈالر کی فلاحی تنظیم شروع کی ، وہ ڈیوس اور اسی طرح کی کانفرنسوں میں باقاعدہ شریک ہوتا تھا ، جہاں اس کی بل گیٹس کے ساتھ دوستی ہوگئی ، عارف نقوی کو اندازہ تھا کہ بل گیٹس امیر اور غریبوں کے لیے فکر مند شخص ہے ، اس نے 2012 میں بل گیٹس کو اپنے گھر عشائیے پر مدعو کیا ، جہاں دونوں کی بہت زیادہ بات چیت ہوئی ، اس دوران انہوں نے اتفاق کیا کہ ان کی فلاحی تنظیمیں پاکستان میں فیملی پلاننگ پروگرام پر مل کر کام کریں گی۔ مصنفین نے اپنی کتاب میں لکھا کہ نقوی کو گیٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے مبینہ طور پر ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں ہسپتالوں اور کلینکوں میں سرمایہ کاری کے لیے 10 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری دی گئی ، یہ سرمایہ کاری نئے ابراج گروتھ مارکیٹس ہیلتھ فنڈ میں نقوی کو دوسرے سرمایہ کاروں سے 900 ملین ڈالر زیادہ حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوئی ، کیوں کہ بل گیٹس نے اس معاہدے کے بارے میں کہا کہ یہ ایک اہم سرمایہ کاری شراکت داری ہے ، یہ اس قسم کی سمارٹ شراکت داری کی ایک مثال بھی ہے جو مستقبل کے لیے بہت بڑا وعدہ کرتی ہے۔

وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر سرکاری رہائش گاہ میں منتقل ہونے سے انکار کر دیا

تاہم حقیقت کچھ اور تھی کیوں کہ عارف نقوی نے پہلے ہی ’خفیہ ٹریژری ڈیپارٹمنٹ‘ کے ساتھ پیسے کا غلط استعمال شروع کر دیا تھا جس کے بارے میں ان کے بیشتر ملازمین بھی نہیں جانتے تھے ، ابراج 300 سے زیادہ کمپنیوں کے الجھے ہوئے جال سے بنا تھا جو زیادہ تر دنیا بھر میں ٹیکس بچانے کی جنت سمجھے جانے والے مقامات پر مبنی ہے جہاں سے کم از کم 660 ملین ڈالر سرمایہ کاروں کے پیسے ابراج کے پوشیدہ بینک کھاتوں میں ان کی معلومات کے بغیر منتقل کیے گئے ، پھر ان اکاؤنٹس سے 200 ملین ڈالر سے زیادہ کی رقم عارف اور اس کے قریبی لوگوں کو پہنچ گئی۔ کتاب میں لکھا گیا ہے کہ عارف نقوی نے دنیا کو چلانے اور ہلانے والوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے ایک ملازم نے اس کا بھانڈہ پھوڑ دیا ، جس کے ذریعے پتہ چلا کہ نقوی نے مبینہ طور پر اپنے فنڈز سے تقریبا 780 ملین ڈالر لیے تھے ، جن میں سے 385 ملین ڈالر کا کوئی حساب نہیں ہے ، اس فراڈ پر اسے ممکنہ طور پر 291 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے ، یہ سب اس لیے ہوا کہ جب عارف نقوی نیو یارک میں تھا تو عین اسی وقت ایک ملازم نے سرمایہ کاروں کو ایک گمنام ای میل بھیجی ، جس کے ذریعے ابراج گروپ میں برسوں کی غلط کاریوں کے بارے میں متنبہ کیا گیا جو کہ ایک بم دھماکہ ثابت ہوا جس کے نتیجے میں تاریخ میں ایک نجی ایکویٹی فرم کا سب سے بڑا خاتمہ ہوا۔

وزیر اعظم نے یکساں نصاب تعلیم میں سیرت النبی ﷺ سے متعلق اہم ہدایات جاری کر دیں

آرٹیکل کے مطابق اکتوبر 2018 میں کتاب کے مصنفین نے وال اسٹریٹ جرنل میں ابراج کی مبینہ غلط کاریوں کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک مضمون شائع کیا ، جس کے بعد آخر کار امریکی پراسیکیوٹرز نے عارف نقوی پر مجرمانہ تنظیم چلانے کا الزام لگایا ، جس کی پاداش میں 10 اپریل 2019 کو اسے لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے سے گرفتار کیا گیا اور اس کی حوالگی کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس کے خلاف نیویارک میں دھوکہ دہی کے مقدمے کی سماعت ہوسکے تاہم تمام تر کاغذی ثبوتوں کے باوجود تاحال عارف نقوی نے اپنی بے گناہی برقرار رکھی ہے اور وہ اس وقت اپنی اپیل کے فیصلے کے انتظار میں لندن میں اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہے تاہم اس کی کمپنی کا نام لندن اسکول آف اکنامکس میں پروفیسر شپ سے ہٹا دیا گیا۔

FOLLOW US