اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW) حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان جنگجوؤں کے قبضے سے جہاں چین کے لیے نئے اقتصادی اور سیاسی مواقع پیدا ہوئے ہیں، وہیں خطرات بھی ہیں۔ اسلامی انتہا پسندی چین کے ایغور ریجن کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہیں، جہاں پہلے ہی چین مسلم اقلیت کے ساتھ ‘امتیازی سلوک‘ برت رہا ہے۔ چین پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو اور بحالی کے لیے خدمات سر انجام دینے کے لیے تیار ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال افغانستان میں اقتصادی فوائد حاصل کرنے کے لیے البتہ اس ملک میں قیام امن اور سکیورٹی کی صورتحال انتہائی اہم ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکی اتحادی فوجی مشن کے بعد یہ خطہ ایک مرتبہ پھر علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اپنے بیٹے کی شادی کی تقریب میں شرکت کریں گی۔
رائل یونائٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف لندن سے وابستہ رافائلو پنٹوچی کا کہنا ہے کہ چین اس بیانیے کو فروغ دے گا کہ امریکی اثررسوخ زوال کا شکار ہے، اس لیے بیجنگ حکومت ہی یورو ایشیا میں بہتر سرمایہ کاری کرتے ہوئے اس خطے میں قیام امن کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے اس شک کا اظہار بھی کیا کہ فی الحال چین کے لیے یہ پراجیکٹ آسان نہیں ہو گا۔ دہشت گردی پھیل سکتی ہے
دیگر کئی ممالک کی طرح چین نے بھی بارہا کہا ہے کہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان کو دہشت گردی کا مرکز نہیں بننے دیا جائے گا۔ چین کو خطرہ ہے کہ اس صورت میں دہشت گردی کے اثرات سنکیناگ تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ایک اور اہم یہ بھی ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے اس شدت پسندی کے اثرات پاکستان اور وسطی ایشیا کی دیگر ریاستوں پر بھی منتج ہوں گے، جہاں چین نے نہ صرف بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے بلکہ اتحادی بھی بنا رہا ہے۔ چائنہ انسٹی ٹیوٹ آف کانٹمپریری انٹرنیشنل ریلشنز سے ریٹائرڈ ہونے والے بین الاقوامی سکیورٹی کے ماہر لی وائی کے بقول طالبان کیا کریں گے یہ ابھی واضح نہیں، ”افغان طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ عالمی دہشت گرد گروہوں سے تعلق توڑ دیں گے لیکن ابھی تک ہمیں یہ نہیں معلوم کہ وہ ایسا کیسے کریں گے کیونکہ ابھی تک وہ باضابطہ طور پر اقتدار میں نہیں آئے ہیں۔
‘‘
چین اور طالبان میں ہم آہنگی مشکل
طالبان اور چین کبھی بھی ‘برادرانہ دوست‘ نہیں بن سکتے کیونکہ مذہبی بنیادوں پر دونوں کے نظریات متصادم ہیں۔ کمیونسٹ چین لادین ہے، جس کا بنیادی موٹو مذاہب سے بالاتر ہو کر سماجی استحکام اور اقتصادی ترقی کا داعی ہے جب کہ افغان طالبان کے لیے مذہب ہی سب کچھ ہے۔ تاہم چین کی سفارتی پالیسی ایسی ہے کہ اس کے باوجود عملیت پسند چینی رہنما طالبان کے ساتھ پارٹنر شپ بنانے کی کوشش کریں گے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے گزشتہ ماہ ہی طالبان کے ایک وفد کی میزبانی کی تھی، جس میں طالبان کے اہم سیاسی رہنما ملا عبدالغنی برادر بھی شامل تھے۔ اس دوران چین نے امید ظاہر کی تھی کہ افغانستان میں دہشت گردانہ خطرات اور تشدد کا خاتمہ ممکن ہوگا جبکہ ملک میں استحکام پیدا ہو گا۔ چینی حکام اور میڈیا میں افغانستان کی موجودہ صورتحال پر امریکی ہنگامی انخلا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور دہرایا گیا کہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی امریکا کے لیے باعث شرمندگی ثابت ہوئی ہے۔ یہ وہ بیانیہ ہے، جس کے تحت بیجنگ حکومت خطے میں امریکی اثرورسوخ کے کم ہونے کی وکلالت کر رہی ہے۔ اس کے باوجود چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے اپنے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن کو یقین دہانی کرائی ہے کہ بیجنگ حکومت واشنگٹن کے ساتھ مل کر علاقائی سطح پر کام کرنے کو تیار ہے۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا دانستہ طور پر چینی مفادات اور حقوق کو دبا نہیں سکتا ہے۔
کورونا کی شکار فلائٹ لیفٹیننٹ ڈاکٹر ماہ نور فرزند انتقال کر گئیں
چینی مفادات کے لیے قیام امن ناگزیر
چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز سے وابستہ محقق ین گانگ کا اصرار ہے کہ امریکا اور چین دونوں کا مشترکہ مفاد اسی میں ہے کہ افغانستان میں استحکام پیدا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یوں امریکا کی بیس سالہ جنگ پر اسے اطمینان ہو گا جبکہ چین افغانستان میں تعمیر نو اور بحالی پر سرمایا کاری کر سکے گا۔ چین کی کوشش ہے کہ افغانستان میں کمرشل منصوبہ جات شروع کیے جائیں تاہم ابھی تک کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔ چائنا میٹالرجیکل گروپ کارپوریشن کی قیادت میں ایک کنسورشیم (تجارتی اداروں کی تنظیم) نے کابل کے جنوب مشرق میں واقع مس عینک نامی علاقے میں تانبے کے ذخائر میں کان کنی کی خاطر تین بلین ڈالر کی بولی لگائی تھی۔ اس کے ساتھ اس منصوبے کے تحت افغانستان میں ایک پاور پلانٹ لگانے کے لیے ریلوے لائنز پچھانا تھیں اور دیگر ترقیاتی منصوبہ جات شروع کیے جانا تھے۔ کئی برسوں کی کوششوں کے باوجود بھی یہ منصوبے شروع نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اس علاقے میں جاری باغیانہ کارروائیاں ہیں۔
اسی طرح چین نے افغانستان سے متصل پاکستانی علاقوں میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد وسط ایشیائی خطے تک تجارت کے زمینی روٹ تیار کرنا بھی ہے۔ تاہم افغانستان میں بدامنی کی وجہ سے ابھی تک اس اہم تجارتی روٹ کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔
ریمبوکاٹک ٹاکرعائشہ اکرم سے کیاتعلق؟ کہانی میں نیاموڑ آگیا
آسٹریلوی شہر میلبورن کے سیاسی خطرات کے تجزیہ کار ہنری سٹورلے کے مطابق افغانستان میں دہشت گردی اور بدامنی کی وجہ سے پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک میں چین کے اقتصادی مفادات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان کے مطابق چین کی کوشش ہو گی کہ یہ سب معاملات پرامن طریقے سے طے پا جائیں اور وہ اپنے ان مفادات کے حصول کی خاطر افغانستان میں طاقت کے استعمال والی امریکی غلطی نہیں دہرائے گا۔
ع ب / ع ت (اے پی)