Wednesday October 23, 2024

بریکنگ نیوز : پاکستان میں نئے وزیر اعظم کا انتخاب ،کیا (ن) لیگ اپ سیٹ کر دکھائے گی ،سنسنی خیز خبر نے دھوم مچا دی

لاہور (ویب ڈیسک )پاکستان کی 15ویں قومی اسمبلی کے نو منتخب ارکان آج ملک کے نئے وزیراعظم کا انتخاب کریں گے جس میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف پر عددی برتری حاصل ہے جبکہ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ شبہاز شریف کو ووٹ نہیں دے گی۔

قومی اسمبلی سے منتخب ہونے والے قائد ایوان سنیچر کو ایوان صدر میں صدر مملکت ممنون حسین سے وزارتِ اعظمیٰ کے عہدے کا حلف لیں گے۔قومی اسمبلی میں سپیکر کا انتخاب خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے۔ تاہم وزیراعظم کا انتخاب ڈویژن کے ذریعے ہو گا جس کے تحت ارکان اسمبلی اپنے اپنے امیدواروں کی لابی میں چلے جائیں گے۔اس کے بعد ارکان کی گنتی کی جائے گی اور وزیراعظم کی کامیابی کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اگر ووٹ برابر ہوں تو اس صورتحال میں سپیکر اپنا ووٹ کسی امیدوار کو دے سکتا ہے تاہم اگر عددی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کی نوبت نہیں آئے گی۔قائد ایوان کو کامیابی کے لیے کم از کم 172 ووٹ درکار ہوتے ہیں اور بدھ کو سپیکر کے انتخاب میں 330 ووٹوں میں سے تحریک انصاف کے امیدوار اسد قیصر کو 176 ووٹ پڑے تھے اور اگر اسی رجحان کو دیکھا جائے تو عمران خان کی کامیابی یقینی ہے۔دوسری جانب حزب اختلاف کی جانب سے خورشید شاہ سپیکر کے عہدے کے لیے مشترکہ امیدوار تھے اور انھیں 146 ووٹ پڑے تھے لیکن قائد ایوان کے انتخاب میں شہباز شریف کو پیپلز پارٹی کے 54 ووٹ نہیں ملیں گے۔سپیکر کے انتخاب میں اپوزیشن متحد تھی جس میں مسلم لیگ نواز کے ارکان نے بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار خورشید شاہ کو ووٹ دیے تھے

تاہم اپوزیشن کے اتحاد میں وزارتِ اعظمیٰ کے لیے مشترکہ امیدوار کے نام پر اختلافات سامنے آئے ہیں۔مسلم لیگ نون کی جانب سے شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں تاہم ایوان میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیں گے۔پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما نوید قمر نے بی بی سی کو اس کے بارے میں بتایا کہ ان کی جماعت شبہاز شریف کو ووٹ نہیں دے گی اور نہ ہی تحریک انصاف کے امیدوار عمران خان کو ووٹ دے گی۔پیپلز پارٹی کے موقف میں آنے والی تبدیلی کے حوالے سے سوال کے جواب میں نوید قمر نے کہا کہ انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر جن فیصلوں پر اتفاق ہوا تھا ان میں حزب اختلاف کے مشترکہ امیدوار کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن مسلم لیگ نون کی جانب سے وزارتِ اعظمیٰ کے امیدوار کا نام سامنے نہیں آیا تھا۔لیکن جب مسلم لیگ نون کی جانب سے شہباز شریف کا نام سامنے آیا تو ان کی پارٹی کے اندر کافی اعتراضات سامنے آئے۔ اس پر فیصلہ کیا گیا کہ مسلم لیگ نون سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنا امیدوار تبدیل کرے اور بات چیت کے مختلف ادوار ہوئے لیکن نام تبدیل نہیں کیا گیا

تو مجبوراً ہمیں بھی یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ ہم ووٹنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔‘پیپلز پارٹی کو مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کے نام پر اعتراض ہےنوید قمر نے کہا کہ ایوان میں جماعتیں کسی نہ کسی امیدوار کی حمایت کرتی ہیں لیکن ایسا پہلی بار ہو گا کہ ان کی جماعت ایوان میں تو موجود ہو گی لیکن کسی امیدوار کی حمایت نہیں کر رہی ہو گی۔نوید قمر نے ان اطلاعات کو سختی سے مسترد کیا کہ ان کی جماعت کے تحریک انصاف کے ساتھ درپردہ رابطے ہیں۔خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کی مسلم لیگ کے رہنما نواز شریف کے برعکس شہباز شریف سے ہمیشہ دوریاں رہی ہیں اور شہباز شریف پیپلز پارٹی کے بڑے ناقد رہے ہیں اور اب بار انھوں نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھیسٹنے کی بات بھی کی تھی۔اس سے پہلے بدھ کو قومی اسمبلی کے نو منتخب ارکان نے بدھ کو پاکستان تحریکِ انصاف کے اسد قیصر کو ایوان کا نیا سپیکر منتخب کر لیا ہے جبکہ قاسم سوری ڈپٹی سپیکر منتخب کیا تھا جبکہ پیر کو انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں نے حلف اٹھایا تھا۔دوسری جانب صوبہ سندھ اور خیبر پختوا میں حکومت سازی مکمل ہو چکی ہے جبکہ صوبہ بلوچستان اور صوبہ پنجاب میں ابھی قائد ایوان کا انتخاب ہونا ہے۔()(بشکریہ بی بی سی )

FOLLOW US