Thursday October 24, 2024

اگر مجھے وزیر اعلیٰ پنجاب بننے سے روکا گیا تو۔۔ ۔ حمزہ شہباز نے مخالفین کو دھمکی دیتے ہوئے حیران کن دعویٰ کر ڈالا

لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ اسمبلی کے اندر اور باہر اپنے ووٹ کی حفاظت کریں گے، اگر ہمارے ووٹ پر گھات لگائی گئی تو اسمبلی نہیں چلنے دیں گے۔وہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے، انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہے،

مشترکہ اپوزیشن ہی نے شہباز شریف کو وزیرِ اعظم کا امیدوار بنایا تھا۔حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ ہم سے کہا گیا تھا کہ آپ کی اکثریت ہے اس لیے آپ کا امیدوار ہونا چاہیے، اسپیکر کے الیکشن پر ہمارے ووٹوں پر ڈاکا ڈالا گیا۔وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز نے کہا ’پنجاب اسمبلی میں ہماری تعداد 159 تھی، رزلٹ اناؤنس کیا گیا تو ووٹ 147 نکلے، آج ہارس ٹریڈنگ کو دوبارہ ہوا دی گئی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں پری پول دھاندلی ہوئی، آزاد ارکان کو جہازمیں بنی گالہ لایا گیا، ہمارے سب ساتھیوں نے بازوؤں پر کالی پٹی باندھی ہوئی ہے۔حمزہ شہباز نے کہا کہ 25 جولائی کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی، مزید کہا ’میں نواز شریف اور شہباز شریف کا سپاہی ہوں، ہم نے جمہوریت کی گاڑی کو پٹری پر چلانے کے لیے حلف لیا ہے۔‘واضح رہے کل وزارتِ عظمیٰ کے لیے قومی اسمبلی میں ووٹنگ ہوگی، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور ن لیگ کے شہباز شریف آمنے سامنے ہوں گے۔ جبکہ دوسری جانب ملک کے 22 ویں وزیراعظم کا انتخاب آج عمل میں لایا جائے گا جس کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور،

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف میدان میں ہیں۔قومی اسمبلی کا اجلاس آج سہ پہر ساڑھے تین بجے شروع ہوگا جس میں ملک کے اگلے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ اس بار خفیہ رائے شماری کے بجائے ڈویژن کے ذریعے ووٹ دیے جائیں گے، عمران خان کے حامی ایک لابی اور شہباز شریف کے حامی دوسری لابی میں جائیں گے۔ تحریک انصاف کی جانب سے چیئرمین عمران خان اور ن لیگ کی جانب سے شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ بظاہر عمران خان کے وزیراعظم بننے کے لیے میدان صاف ہوگیا ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت تو کرے گی لیکن انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنے گی اور عمران خان اور شہباز شریف میں سے کسی کو بھی وزیراعظم کا ووٹ نہیں دے گی۔واضح رہے کہ پیپلز پارٹی نے ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کے الیکشن سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ن لیگ سے وزیراعظم کا امیدوار بدلنے کا کہا گیا اور اس حوالے سے ن لیگ کو تحفظات سے بھی آگاہ کردیا گیا تھا،

جس پر لیگی رہنما سعد رفیق بولے کہ پیپلز پارٹی نے پہلے شہباز شریف کے نام پر اتفاق کیا اور بعد میں زرداری صاحب کے کہنے پر پیچھے ہٹ گئی۔ دوسری جانب شہباز شریف کے صاحبزادے اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز نے کہا کہ ہم ہر جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے ڈٹ کر اپوزیشن کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے خورشید شاہ کو اسپیکر قومی اسمبلی کا ووٹ دیا تھا۔ قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے چناؤ کے لیے جیت عددی برتری رکھنے والی جماعت کی ہی ہوگی، ایوان زیریں میں موجودہ پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو 152 نشستیں پاکستان تحریک انصاف کے پاس ہیں جبکہ سابقہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 81 نشستیں ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کی 54 نشستیں، متحدہ مجلس عمل 15 ، متحدہ قومی مومنٹ 7 ، بلوچستان عوامی پارٹی 5، بی این پی مینگل 4، پاکستان مسلم لیگ (ق) 3، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) 3، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے جبکہ 4 نشستیں آزاد امیدواروں کے پاس ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی سپورٹ کو دیکھا جائے تو اس کے پاس 152 نشستیں ہیں اور اسے متحدہ قومی مووومنٹ کے 7، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، بی این پی مینگل کے 4، جی ڈی اے کے 3، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک ممبر کی حمایت حاصل ہے، جس سے ان کی ایوان میں عددی قوت 176 بنتی ہے۔چار آزاد امیدواروں کا جھکاؤ بھی پاکستان تحریک انصاف کی جانب ہوسکتا ہے، اگر ایسا ہوا تو پی ٹی آئی وزارت عظمیٰ کے لیے 180 ارکان کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔

FOLLOW US