اسلام آباد (نیوزڈیسک) پاکستان تحریک انصاف نے مرکز ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں حکومت بنانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد پارٹی کی اعلیٰ قیادت اراکین اسمبلی کے اعداد و شمار پورے کرنے میں لگ گئی ، فواد چوہدری نے گذشتہ روز اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کی پوزیشن میں آ گئی
ہے۔پاکستان تحریک انصاف حکومت تو سنبھال لے گی لیکن حکومت سنبھالتے ہی سب سے بڑا چیلنج ملکی میعشت کو سنبھالنا ہو گا۔ ملک کے خالی خزانوں کو دیکھ کر پاکستان تحریک انصاف کے معاشی ماہرین نے بھی سر جوڑ لیے ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق اس قدر معاشی بدحالی کی وجہ سے ایسے حالات میں حکومت چلانا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔حکومتی معاملات چلانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کو فوری طور پر 10 ارب ڈالر کے قرضے یا امداد کی ضرورت ہے۔جو حکومت سازی کے بعد سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے معاشی ماہرین بھی اس معاملے پر سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے مختلف آپشنززیر غور ہیں۔ قرض کے لیے اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے تو آئی ایم ایف میں پاکستان کو قرض دینے کا کوٹہ صرف 2.8 ارب ڈالر ہے اور قرض وصول کرنے کےعوض پاکستان کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بھی ماننا پڑیں گی۔جس میں پیسے کی ویلیو کی کمی،،بجلی نرخوں میں اضافہ اور سی پیک کے کھاتے کھولنے کے مطالبات شامل ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس وقت ملک میں ڈالر کے ذخائر 9.5 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ تجارتی خسارہ 38 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے اور بجٹ خسارہ 2.2 ٹریلین تک پہنچ گیا ہے اور سرکلر ڈیڈ 1.1 ٹریلین روپے سے کراس کر چکے ہیں۔علاوہ ازیں ملک بھر میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے۔ان حالات کے پیش نظر پاکستان تحریک انصاف نے فوری طور پر نئی تجارتی پالیسی کا اعلان کرکے تجارتی خسارہ میں کمی اور بے جا اخراجات کے خاتمہ کے لیے بھی غور شروع کر دیا ہے اور اس سلسلے میں بیرون ممالک میں تعینات کمرشل اتاشیوں اور سیاسی بنیادوں پر تعینات سفیروں کو فوری طور پر ہٹانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے ۔ جس کے بعد ملک کو معاشی بحران سے نکالنے میں مدد ملے گی اور پاکستان تحریک انصاف کے لیے بھی اس چیلنج کا مقابلہ کرنا آسان ہو گا۔