Sunday May 5, 2024

ملک معاشی تباہی کے دہانے پر ۔۔عمران خان نے وفاقی دارالحکومت پر یلغار کا اعلان کر دیا ، 2014کے دھرنے میں پاکستان کو کتنے ارب ڈالرز کا نقصان ہوا تھا؟ ایک بار پھر پاکستان اسی مقام پر پہنچ گیا

اسلام آباد: پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں زوال کا شکار ہے اور ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 201روپے سے بھی اوپر چلا گیا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری رکنے لگی ہے اور یومیہ بنیادوں پر پاکستان معاشی تباہی کی جانب گامزن ہے۔موجودہ حکومت ابھی قدم جما ہی نہ سکی تھی کہ رخصت ہونیوالے سابق وزیراعظم عمران خان نے حکومت کیخلاف طبل جنگ بجا دیا۔ جلسے ،جلوسوںاور ریلیوں نے ملکی میشت کو جام کرکے رکھ دیا۔ڈالر بھی تیزی سے اوپر گیا اور سٹاک مارکیٹ بھی بُری طرح کریش کر گئی ۔

فوج کی جانب عمران خان کا آزادی مارچ روکنے کا حکم؟آئی جی خیبرپختونخوا نے خود میدان میں آکر افواہوں کی تردید کر دی ، عمران ریاض خان کی خبر جھوٹ کا پلندہ قرار

معیشت پہلے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی کہ اب عمران خان نے آزادی مارچ کا اعلان کر دیا۔ ملک بھر کے تمام بڑے شہروں میں مظاہرے، گرفتاریاں، افراتفری کا سماں ہے ۔ پاکستانی کرنسی مزید بُری طرح پٹ رہی ہے جبکہ سرمایہ کاروں نے بھی پیسہ نکال لیا ہے۔ کاروباری حضرات شدید پریشان ہیں کیونکہ کاروبار ٹھپ ہو رہے ہیں۔عمران خان صاحب پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے۔فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔اس وقت جب ملک میں سیاسی انتشار کا شکار ہے تو سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی بجائے اپنے مسائل کو باہمی طور پر حل کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے 126 دن کے دھرنوں کی معاشی قیمت• پاکستان کو 547 ارب روپے کا معاشی نقصان ہوا۔بیرونی سرکاری قرضہ مالی سال 2014 کے اختتام پر 5,076b روپے سے بڑھ کر 5,304b روپے تک پہنچ گیا، جس سے تقریباً 228b روپے کا نقصان ہوا۔• 760.5 ملین روپے صرف دارالحکومت میں حفاظتی انتظامات پر خرچ ہوئے۔• ایکسچینج ریٹ 5 اگست 2014 کو 98.82 روپے سے 25 اگست 2014 کو 103.19 روپے تک گر گیا، جس سے درآمدی بل پر منفی اثر پڑا۔• جولائی 2014 میں ایف ڈی آئی کی آمد 113.6 ملین ڈالر سے کم ہو کر اگست 2014 میں 92 ملین ڈالر رہ گئی۔معیشت کی موجودہ صورتحالاس وقت پاکستان بڑی مالی مشکلات سے گزر رہا ہے

فوج پاکستان کی بقاکی ضامن ، خدارا عوام کے دلوں میں فوج اور عدلیہ کیخلاف نفرت نہ بڑھائیں، عوام اپنی بہادر فوج کے پیچھے کھڑے ہیں

کیونکہ حکومت نے ملک کو وینٹی لیٹر سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کا دوبارہ آغاز کیا۔تاہم، گزشتہ پی ٹی آئی کے دھرنے کے دوران پاک-آئی ایم ایف ڈیل کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑا اور جب ایک بار پھر بیل آؤٹ پیکج کے لیے مذاکرات شروع ہوئے تو پی ٹی آئی ایک بار پھر سڑکوں پر آگئی جس سے ڈیل پر ہونے والی پیش رفت پر سوالیہ نشان لگا۔حکومت کا آئی ایم ایف کو اس معاہدے کے لیے قائل کرنے کا امکان نہیں ہے جب اسے اندرونی چیلنجز خاص طور پر سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے۔ لہٰذا عقل کو غالب ہونا چاہیے اور کسی بھی تصادم سے بچنے کی کوشش کی جانی چاہیے کیونکہ پاکستان کسی قسم کی رکاوٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اگر حکومت اس معاہدے کو محفوظ بنانے میں ناکام رہتی ہے تو پاکستان کو بے شمار مالی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ مہنگائی اور غربت کے شکار عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔بے روزگاری۔پاکستان میں 2020 کے لیے بے روزگاری کی شرح 4.65 فیصد تھی، جو 2019 کے مقابلے میں 0.67 فیصد زیادہ ہے اور سیاسی عدم استحکام صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔اس لیے پاکستان کو بڑھتے ہوئے مسائل سے نمٹنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔

FOLLOW US