اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان کی ممکنہ آمد کے پیش نظر سپریم کورٹ میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔اب سے کچھ دیر قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں سانحہ آرمی پبلک سکول کے از خود نوٹس کی سماعت ہوئی جس کے دوران سپریم کورٹ نے وزیراعظم عمران خان کو طلب کیا۔بعدازاں وزیراعظم عمران خان سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی ملاقات ہوئی جس میں انہیں سانحہ آرمی پلک سکول ازخود نوٹس کیس پر بریفنگ دی گئی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کو ازخود نوٹس کیس کی سماعت بارے آگاہ کیا وزیراعظم ممکنہ طور پر سپریم کورٹ پیش ہو سکتے ہیں جس کے بعد فوری طور پر سپریم کورٹ کی سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔سپریم کورٹ میں سیکیورٹی کی اضافی نفری طلب کر لی گئی ہے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے از خود نوٹس پر سماعت کی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ واقعہ سکیورٹی لیپس تھا، حکومت کو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئیے، اس وقت کے تمام عسکری و سیاسی حکام کو اس کی اطلاعات ہونی چاہئیے تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری ایجنسیوں اور اداروں کو تمام خبریں ہوتی ہیں لیکن جب ہمارے اپنے لوگوں کی سکیورٹی کا معاملہ آتا ہے تو وہ ناکام ہو جاتی ہیں۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن ضرب عضب جاری تھا اور اس کے ردعمل میں یہ واقعہ پیش آیا، ہمارے حکومتی اداروں کو اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیے تھے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سب سے نازک اورآسان ہدف اسکول کےبچے تھے، ممکن نہیں دہشت گردوں کواندر سے سپورٹ نہ ملی ہو جبکہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچوں کو ایسے مرنے نہیں دے سکتے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اے پی ایس کا واقعہ سکیورٹی کی ناکامی تھی؟ کیس میں رہ جانے والی خلا سے متعلق آپ کو آگاہ کرنے کا کہا گیا تھا۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم اپنی تمام غلطیاں تسلیم کرتے ہیں، لیکن اعلیٰ حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں دفتر چھوڑ دوں گا کسی کا دفاع نہیں کروں گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سابق آرمی چیف ودیگر ذمہ داران کے خلاف مقدمہ درج ہوا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا سابق آرمی چیف ،ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف کوئی فائنڈنگ نہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، اربوں روپے انٹیلی جنس پر خرچ ہوتے اور دعوی بھی ہے ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں، عوام کی حفاظت کی بات آتی ہے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہیں، انٹیلی جنس پر اتنا خرچ ہورہا ہے لیکن نتائج صفر ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے مزید کہا اداروں کومعلوم ہونا چاہئیے تھا قبائلی علاقوں میں آپریشن کا ردعمل آئے گا۔ سپریم کورٹ میں دوران سماعت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے۔ جس پر وکیل والدین امان اللہ کنرانی نے کہا کہ حکومت ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ قصاص کا حق والدین کا ہے ریاست کا نہیں، ریاست سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ جس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ سیاسی باتیں یہاں نہ کریں ،یہ عدالت ہے۔ کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بچوں کوا سکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے۔ چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی۔ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہئیے تھی۔
بنگلہ دیش کے خلاف ٹی 20 سیریز، 18 رکنی سکواڈ کا اعلان، شعیب ملک اِن، حفیظ آؤٹ
اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔ جس پر چیف جسٹس گلزار احمد نے برہمی کا اظہار کیا ۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سنجیدگی کا عالم ہے؟ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے ،ایسے نہیں چلے گا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران وزیراعظم عمران خان کو آج ہی طلب کر لیا۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں کہا کہ اگر مجھے وقت دیا جائے تو میں وزیراعظم اور دیگر حکام سے ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کروں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ ہے اس پر وزیراعظم سے ہی جواب طلب کریں گے ۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں سانحہ آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس کيس سماعت کے لیے دو روز قبل مقرر کیا تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو اس حوالے سے نوٹس جاری کیا تھا۔ گذشتہ سماعت کے دوران درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ اے پی ایس حملے میں ہم نے اپنے بچے کھو دیے لہذا کیس کی ایف آئی آر درج کی جائے اور معاملے کی تحقیقات کر کے ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا تھا کہ معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔