اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائزعیسٰی کا از خود نوٹس خارج کردیا۔ تفصیلات کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے ازخودنوٹس لینے کے طریقہ کار کے کیس کی سماعت کی ، جس کے فیصلے میں فاضل بینچ نے اپنے فیصلے میں از خود نوٹس کے پیرا میٹرز طے کردیئے ، عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ از خود نوٹس صرف چیف جسٹس پاکستان یا ان کی منظوری سے ہی لیا جاسکتا ہے ، بنچز کی جانب سے لئے گئے تمام نوٹسز پر سماعت معمول کے مطابق ہوگی ، ازخود نوٹسز کیس وہی بینچ سنے گا جس کے پاس زیرالتوا ہے ، بنچ از خود نہ تو کسی کو طلب کر سکتا ہے نہ رپورٹ منگوا سکتا ہے ، بنچز کے نوٹسز پر سماعت چیف جسٹس کے تشکیل کردہ بنچ ہی کریں گے ، آئندہ کوئی بھی بینچ از خود نوٹس کے اختیار استعمال کرنے کے لئے فائل چیف جسٹس کو بھجوائے گا ، سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے پیش کی گئی صحافیوں کی درخواست بھی نمٹا دی۔
اسلام میں موسیقی حرام ہے، طالبان نے عوامی مقامات پر موسیقی پر پابندی لگا دی
قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران صحافی عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے بنچ پر اعتراض کیا ، جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ بنچ پر اعتراض جرم نہیں لیکن اس نکتے پر دلائل تو دیں ، صحافیوں کی درخواست میں فریقین کے نام بھی شامل نہیں ہیں ، ایک صحافی نے دستخط 14 دوسرے نے 20 تاریخ کو کیے ، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا آفس کھلا تھا تو آپ نے درخواست وہاں کیوں نہیں دی؟ جس پر جہانگیر جدون نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ صحافیوں نے درخواست رولز کے مطابق دائر نہیں کی ، جن اداروں کو نوٹس ہوا تو وہ درخواست پر اعتراض کر سکتے تھے۔ سماعت کے موقع پر قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کو قانون اور ضابطے کے تحت کارروائی کرنی ہوتی ہے، صحافی معاشرے کی آواز ہیں ، صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر کوئی دو رائے نہیں ہیں ، صحافیوں کی درخواست برقرار ہے اس پر کارروائی بھی ہوگی ، سپریم کورٹ کا ہر بنچ از خود نوٹس لے سکتا ہے ، از خود نوٹس کی سماعت پر بنچ بنانا اور تاریخ مقرر کرنا چیف جسٹس کا کام ہے ، سپریم کورٹ رولز آئین کے تحت بنے ہوئے ہیں، 20 اگست کا حکم سپریم کورٹ کا حکم ہے، موجودہ بنچ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ کے حکم میں مداخلت نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین کا تحفظ اور بنیادی حقوق کا نفاذ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، صحافیوں کیخلاف کچھ ہوا تو سپریم کورٹ دیوار بن کر کھڑی ہوگی، صحافی عدالت سے کبھی مایوس ہوکر نہیں جائیں گے ، سپریم کورٹ آئین کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے، سپریم کورٹ کے تمام ججز محترم ہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لینے کے دائرہ اختیار سے متعلق کیس کا فیصلہ سنادیا ، جس میں 5 رکنی بینچ نے صحافیوں کی درخواست پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لیا گیا از خود نوٹس خارج کردیا۔