’ہر طرف تالیوں کی گونج، عمران خان زندہ باد کے نعرے، اب آیا ہے ہینڈسم وزیراعظم، اب ملک کے حالات بدلیں گے، اب پاکستان وہ نہیں رہے گا جو شریفوں اور زرداریوں نے بنائے رکھا، پاکستان کی محرومیاں ختم ہوں گی، یہاں عدل و انصاف ہوگا، ظلم کا خاتمہ ہوگا، ہر نوجوان کو روز گار ملے گا۔۔۔‘ 18 اگست 2018ء کو یہ منظر ایک ٹی وی چینل کے نیوز روم کا تھا، جب وزیراعظم عمران خان حلف اٹھارہے تھے۔ حلف کے دوران جب وہ ایک لفظ پر رکے اور ہنسے تو ایک ’پٹواری‘ کی آواز آئی ’یہ نحوست ثابت ہوگا‘۔ اس کے منہ سے یہ نکلنا تھا کہ وہاں موجود کپتان کے دیوانے اس کی طرف لپکے، غضب ناک نظروں سے دیکھا۔ ایک دیوانی تو مارنے پر اتر آئی۔ آج تین سال کے بعد حالت یہ ہے کہ جب ٹی وی پر کپتان آتا ہے تو وہی دیوانے فوری چینل بدل لیتے ہیں۔
ان تین سالوں میں تحریک انصاف نے اپنے منشور پر کتنا عمل کیا؟ کتنے وعدے وفا ہوئے؟ نئے پاکستان کا سفر کہاں تک پہنچا؟ یہ بتانا ہمارا فرض ہے اور ان سوالات کا جواب مانگنا ہماری ڈیوٹی میں شامل ہے۔آئیے دیکھتے ہیں یہ تین سال کیسے رہے؟۔۔۔ 2018ء میں ترقی کی شرح 5.5فیصد تھی ،اب یہ 3.94 فیصد ہے،افراط زر چار اعشاریہ 68 فیصد تھا اس وقت 8.4 فیصد ہے،یعنی افراط زر میں اضافہ ہوا ہے جو کہ کمی ہونی تھی ،گردشی قرضے 1148 ارب روپے تھے اب 2370روپے ہیں ،یعنی دوگنا اضافہ ہوا،جی ڈی پی میں 33 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا،قرضوں میں 52 فیصد اضافہ ہوا،ٹرانسپرنسی کے مطابق 7 درجے زیادہ کرپشن ہوئی۔ وزیر اعظم عمران خان جب حکومت میں آئے تو سب سے بڑا وعدہ سماجی تبدیلی کا تھا ۔ملک کو فلاحی ریاست بنانے کا تھا ۔تحریک انصاف بڑا سماجی انقلاب نہیں لاسکی ،پنجاب میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ،معیشت میں فسکل استحکام آیا ہے جو پہلے نہیں تھا ،پاکستان کی سیاست میں استحکام آگیا ہے،ایک ٹھہراؤ ہے جو پہلے دو سال میں نہیں تھا۔اس وقت اپوزیشن کے پاس کہنے کو زیادہ کچھ نہیں رہا،ان کابیانیہ دھیماپڑ گیاہے،پیپلز پارٹی ایک صوبے میں حکومت کر رہی ہے،ن لیگ ہاتھ پاؤں مار رہی ہے،ایسے لگتا ہے کہ یہ سیاسی استحکام عارضی نہیں ہے۔دوسری جانب موجودہ حکومت کا اداروں سے بگاڑ نظر نہیں آتا، یہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پرموجودہے،عمران خان ایک پیج کےمعاملےمیں کامیاب ثابت ہوئےہیں،خارجہ محاذ پر پاکستان کو کامیابیاں ملی ہیں ،یہ کامیابی صرف اس حکومت کاکریڈٹ نہیں،اس میں سابقہ حکومتوں کابھی حصہ ہے،اس میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا کردار تھا اور ہے،یہ کریڈٹ ان سے نہیں چھینا جاسکتا ۔
راولپنڈی کے ہسپتال میں ماں کی اپنے کمسن بچے کو مارنے کی کوشش، ویڈیو بھی سامنے آگئی
تحریک انصاف نے ملک میں سیاسی تبدیلی کی بات کی تھی ،عوام کے حالت زار میں بہتری کا خواب دکھایا تھا ،معاشی استحکام ایک عزم تھا ،سب سے اہم بات ہے کہ کرپشن کے خاتمے کی بات کی تھی ۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت ابھی تک ناکام نظر آتی ہے،حکومت دعوے اور وعدے کے برعکس کام کرتی نظر آتی ہے،20 سے 25 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں،نوجوانوں کی توقعات مایوسیوں میں بدلی ہیں ،عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے،پاکستان میں کرپشن ،مہنگائی اور غربت کی آگ ہے،اس میں کمی نہیں آرہی ،کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔تعلیم کے شعبے میں یونیورسٹیوں کے بجٹ پرکٹ لگائے گئے ہیں ۔سب سے چھوٹی کابینہ رکھنے کی بات کرنے والے کی سب سے بڑی کابینہ ہے،قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔پٹرول،بجلی ،گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے،ادویات کی قیمتیں بڑھی ہیں،یہ حکومت نام کی جمہوری ہے کام کی نہیں،عمران کی حکومت کے تمام وعدے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں ۔غریب عوام کو ریلیف دینے میں اس وقت تک حکومت ناکام نظر آتی ہے۔ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی بلدیاتی اداروں کا مفلوج ہونا ہے،عمران خان اختیارات کی منتقلی نچلی سطح پر منتقل کرنے میں ناکام رہی ، احتساب کے عمل کو نتیجہ خیز نہیں بنایا جاسکا ،مقدمات بنے لیکن نتائج نہیں ملے، حکومت کرمنل جسٹس سسٹم کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی ،کوئی قانون سازی نہیں کی جاسکی ۔یہ گورننس کی ناکامی ہی ہے کہ ملک میں کرائم ریٹ میں اضافہ ہوگیا ہے،اس کی تازہ مثال لاہور ،اسلام آباد جیسے شہروں میں خواتین کا غیر محفوظ ہونا ہے۔
یہ نہیں کہ حکومت ہر معاملے میں ناکام ہے یا نکمی ثابت ہوئی ہے،کچھ نیک نامیاں بھی ہیں جو اس کے حصے میں آئی ہیں ،اس حکومت نے کورونا وائرس کی صورتحال پر بہتر انداز میں قابو پایا ہے، احساس پروگرام بھی حکومت کی کامیابیوں میں سے ایک ہے،یہ سماجی نظام میں تبدیلی میں کردار ادا کرے گا ،پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر ہورہی ہے،ایکسپورٹس میں اضافہ ہوا ہے،گاڑیاں،موبائل فون پاکستان میں بننا شروع ہوگئے ہیں،ٹیکسٹائل اور آئی ٹی کی مصنوعات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ موجودہ حکومت نے تین سالوں میں ساتواں چیئرمین ایف بی آر تعینات کیا ہے تاہم ٹیکس محصولات میں بھی اضافہ ہورہا ہے،امید ہے کہ حکومت اپنا ٹیکس ٹارگٹ بھی پورا کرنے میں کامیاب ہوجائے گی ،کنسٹرکشن سیکٹر نے پرفارم کیا ہے،پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں اس میں قرض بھی شامل ہیں ، یہ 24 بلین ڈالرز ہیں ،یہ گزشتہ 14 سالوں میں 17 بلین تک رہے ہیں ،پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے کورونا امداد کی مد میں مزید ڈالرز مل گئے ہیں ، اس وقت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تاریخی ہیں ۔گزشتہ سالوں میں گندم اور چینی کا بحران پیدا کیا گیا ،اب پاکستان کی زراعت بہتر ہورہی ہے،کسانوں کو اجناس کی اچھی قیمت مل رہی ہے،کسان آہستہ آہستہ سنبھل رہا ہے۔
ہیلتھ کارڈ ہے،پناہ گاہیں ہیں ،یہ سب عارضی ریلیف ہے ،حکومت کا طویل مدتی کام نظر نہیں آتا ۔گورننس میں لیڈر شپ کا بحران ہے،عمران خان کے بعد کوئی قیادت نظر نہیں آتی ،حکومت اور پارٹی لیول پر قیادت نہ ہونے سے گوررننس میں مسائل ہیں ،پرائس کنٹرول کرنے میں حکومت ناکام رہی ۔یہ حکومت احتساب اور سیاسی انتقام کو الگ کرنے میں ناکام نظر آئی ۔ وزیر اعظم عمران خان کھلاڑی ہیں،عوام کو توقعات تھیں کہ پاکستان میں کھیلوں کا شعبہ بہتر ہوگا لیکن صورتحال یہ ہے کہ اس وقت بدترین شعبہ کھیل کا ہے ،اولمپکس میں پاکستان کوئی میڈل نہیں جیت سکا ،کرکٹ انتظامی اور کارکردگی کے لحاظ سے بدحالی کا شکار ہے،پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومت میں پاکستان کرکٹ نے ٹی 20ورلڈ کپ اور چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی ،اس حکومت میں اب تک کوئی بڑا کپ پاکستان نہیں آیا ،آگے امید کی جاسکتی ہے،امید پردنیا قائم ہے،حکومت سے بھی آگے اچھی کی امید رکھنی چاہئے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کو اب جاگ جانا چاہئے،اپنے وعدوں اورمنشورپرعمل تیز کر دینا چاہئے،یہ نہ ہو کہ ابھی تو ہمدرد اور سپورٹرز ٹی وی چینل بدل رہے ہیں، سال گزرنے کے بعد ٹی وی توڑنے پر مجبور نہ ہوجائیں ،یہاں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ،ہیرو،زیرو ہوجاتے ہیں ،قابل فخر ،قابل گرفت ٹھہرتے ہیں ۔
نوٹ: یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
News Source: DailyPakistan