Saturday November 2, 2024

عمران خان کا دور حکومت کیسا ہو گا ؟ وہ قوم کے مسیحا بن پائیں گے یا نہیں ؟ ہمیشہ سچی پیشگوئیاں کرنے والے مشہور ماہر علم نجوم نے پیشگوئی کر دی

لاہور(ویب ڈیسک)انتخابات 2018 کے انعقاد کی صورت میں پاکستان نے ایک اور سنگ میل عبور کرلیا۔ انتخابات پُرامن ہوئے تاہم شفافیت پر کچھ پارٹیوں کے تحفظات موجود ہیں۔ انتخابی عمل میں بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں ضرور ہوئیں لیکن جس طرع مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں وہ بھی درست نہیں ہے۔

نامور کالم نگار محمد یسٰین وٹو اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔مولانا فضل الرحمن خود دو سیٹوں سے ہار گئے۔ اس لیے ان کا ردعمل شدید ہونا ایک فطری عمل ہے۔مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ اگر آپ نہیں جیتے تو پورے سسٹم کو ہی الٹ پلٹ کر رکھ دیا جائے ان کی تجویز پی این اے کی طرز پر تحریک چلانے اور اسمبلیوں میں حلف نہ لینے کی ہے۔حلف نہ لینے کی تجویز کی بھرپور تائید کی گئی مگر یہ کن لوگوں نے کی؟۔ مسلم لیگ نون کی طرف سے فوری طور پر اس کی تائید کا فیصلہ نہیں ہوا۔مولانا فضل الرحمن کی حلف نہ اٹھانے کی تجویز کی پرزور حمایت کرنے والوں میں حاصل بزنجو، محمود اچکزئی، اسفندیارولی خواجہ سعد رفیق امیر مقام فاروق ستار شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ شامل تھے۔ویسے انہوں نے سچ ہی کہا کہ حلف نہیں اٹھائیں گے کیونکہ یہ تو جیت ہی نہیں سکے ان کا تو حلف اٹھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر وہ چاہتے تھے کہ باقی جیتے لوگ بھی اسمبلیوں میں نہ جائیں۔ پیپلزپارٹی مولانا کی اے پی سی میں نہیں گئی۔ پیپلزپارٹی اپنے کارڈ درست طریقے سے کھیل رہی ہے۔ اس نے مسلم لیگ نون کی طرف سے

مرکز میں حکومت بنانے کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا۔ ویسے مسلم لیگ نون نے یہ پیشکش کرکے خود اپنے موقف کی نفی کی۔ وہ پنجاب میں اس اصول کے تحت حکومت قائم کرنا چاہتی ہے کہ اسے اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ بجا طور پر میاں محمد نواز شریف نے 2013 کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کو خیبر پی کے میں حکومت بنانے کا موقع دیا۔2013 کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی بڑی پارٹی ثابت ہوئی تھی۔مولانا فضل الرحمن نے میاں نواز شریف کو تجویز دی تھی کہ وہ ساتھ دیں تو ہم دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کے پی ٹی آئی کے پرخچے اڑا دیں کر وہاں اتحادی حکومت قائم کردینگے مگر میاں محمد نواز شریف نے پی ٹی آئی کی اکثریت کو دیکھتے ہوئے مولاناکومہم جوئی سے روک دیا تھا۔ آج حمزہ شہباز اسی بات کو دہرا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی پنجاب میں مسلم لیگ کی اکثریت کا احترام کرے۔یہ بالکل اصولی باتیں ہیں مگر پیپلز پارٹی کو مرکز میں مخلوط اور مشترکہ حکومت بنانے کی دعوت دینا مناسب نہیں ۔پیپلز پارٹی نے یہ پیشکش اس لیے بھی مسترد کردی کہ سندھ میں وہ حکومت بنا رہی ہے۔مرکز میں پی ٹی ائی حکومت میں ہوگی۔

اپنی طرف سے وہ پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ ابھی سے بگاڑ کی بنیادنہیں رکھنا چاہتی۔پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کا پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کے حوالے سے لہجہ بھی پہلے جیسا تلخ و ترش نہیں ہے دوسری طرف مسلم لیگ نون کے لیڈر آج بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے بارے میں سخت لہجے کا استعمال کر رہے ہیں۔مرکز میں اور پنجاب میں مختلف پارٹیوں کی حکومت ہو ہمیشہ اختلافات سر ابھارتے اور بڑھتے رہے ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے ممبران میں بہت بڑا نہیںفرق ہے۔ جو بھی پارٹی حکومت میں آئے گی وہ آزاد ارکان اور دوسری پارٹی کے ممکنہ باغی ارکان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہے گی،یہ تو طے ہے۔ تاہم پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت بنا لیتی ہے تو پھر اس کے پاس اگلے انتخابات میں ڈلیور نہ کرنے کا کوئی جواز اور بہانہ نہیں رہے گا۔مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ ایک دو دن میںپارٹیوں اور عوام میں ہیجانی کیفیت کے بعد پتہ چل جائیگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کے4 ہولناک واقعات ہوئے مگر ادارے انتخابات کرانے کے حوالے سے پرعزم تھے

اور وہ کامیاب بھی ہو گئے۔ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کیلئے نہ صرف بیرونی قوتیں بلکہ کچھ اندرونی حلقے بھی سرگرم تھے۔ایک تحریک کی صورت میں واویلا کیا جارہا تھا، پہلے احتساب پھر انتخاب۔ انتخابات کے انعقاد کے اعلان سے قبل بھی اور اس کے بعد بھی انتخابات کے انعقاد پر شکوک شبہات کے بادل منڈلاتے رہے۔کچھ لوگ تو یقین کے ساتھ کہتے نظر آئے کہ ایک احتسابی سیٹ بنے گا جو دو تین سال چلے گا۔ مگر ہماری پیشگوئیاں ایک ڈیڑھ سال سے ریکارڈ پر ہیں۔جن میں ہم نے یقین ظاہر کیا تھا کہ انتخابات بروقت ہونگے۔کوئی سیٹ اپ نہیں آئے گا۔الحمدللہ ہماری یہ پیش گوئی بھی باقی پیشگوئیوں کی طرف بالکل درست ثابت ہوئی۔قبل ازیں ہم نے اپنی پیش گوئیوں میں سینٹ کے الیکشن بروقت ہونے کے بارے میں بتایا تھا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ بڑے زوردار طریقے سے پراپیگنڈا ہو رہا تھاکہ مسلم لیگ نون کی سینٹ میں اکثریت روکنے کے لئے سینٹ کے انتخابات اپنے وقت پر مارچ میں نہیں ہوں گے مگر ہم نے کہا تھا کہ یہ مارچ میں ہی ہوں گے۔ میاں نواز شریف کی نا اہلیت کا فیصلہ بہت دور تھا ہم نے پیش گوئی کی تھی کہ شہبازشریف آئیندہ مسلم لیگ نون کے صدر ہوں گے۔

گوشہباز شریف کو مسلم لیگ نون کا صدر بنانے میں بڑی لیت و لعل سے کام لیا گیامگر بالآخر وہی مسلم لیگ نون کے صدر بنے۔لندن فلیٹس کے فیصلے سے قبل میاں نوا شریف اور مریم نوازلندن چلے گئے تھے۔دونوں کی سزاو¿ں کا فیصلہ ہوا تو بڑے تیقن سے کہا جا رہا تھا کہ دونوں واپس نہیں آئیں گے۔ ہم نے اپنی پیشگوئیوں میں واضح کہا تھا کہ نہ صرف میاں نواز شریف اور مریم واپس آئیں گے بلکہ کلثوم نواز شریف بھی ہوش میں آ جائیں گی۔گزشتہ دنوں ہیں ہم نے کہا کہ پاکستان کے لیے انتخابات مبارک اور متبرک ثابت ہوں گے۔جس کالم میں ہم نے یہ پیشگوئی کی اس کالم کی ہیڈلائن تھی” انتخابات پاکستان کے لیے سعد“ ہم اس پیش گوئی پر قائم ہیں۔اب ان شاءاللہ پاکستان تیزی سے ترقی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہوگا۔ڈالرتیزی سے نیچے آنا شروع ہوگیا ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں پاکستان عروج پر نظر آئے گا۔ بے روزگاری بھی ختم ہوگی۔عموماً کہا جاتا ہے کہ ایک شخص کیا کر سکتا ہے۔ ایک شخص ہی بہت کچھ کر سکتا ہے ۔ایک ہی شخص نے ہمیشہ بہت کچھ کیا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اصلاح کیلئے کبھی گروہ نہیں آئے۔ ایک شخص ہی آیا

جس کے ساتھ لوگ شامل ہوئے اور گروہ بنے۔ آج بھی ایک شخص بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اس کو اچھی ٹیم مل جائے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے اوپر ایماندار شخص ہو تو نیچے تک اس کے اثرات نفوذ پذیر ہوتے ہیں۔ اوپر بے ایمان ہو تو نیچے تک دیانتداری کا تصور عنقا ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے پاس وسائل کی ہرگز کمی نہیں مگر وسائل کو ہڑپ کرنے سے معاشرے میں بھوک اورننگ نظر آتی ہے۔حکومت کوئی بھی ہو کسی بھی پارٹی کی ہو پاکستان کو ترقی کرنی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچنا چاہیے۔اب ایسا ہی ہوگا۔پاکستان ہے تو سب کچھ ہے۔ پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔مولانا فضل الرحمن کے لہجے میں اشتعال اور اداروں کے خلاف نفرت نظر آئی۔پارٹیوں نے بڑی عقلمندی اور ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں یرغمال بننے سے گریز کیا۔صرف مولانا فضل الرحمن ہی دوبارہ انتخابات کرانے پر مُصر ہیں۔ان کی حلف نہ اٹھانے کی تجویزکی تو انکی سگی اتحادی جماعت اسلامی بھی پذیرائی نہیں کررہی؟۔بالفرض دوبارہ انتخابات پر مولانااپنی طاقت سے اداروں کوجھکاتے ہوئے مجبور کردیتے ہیں تو انتخابات کون کرائے گا؟۔کیا مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کرائے گی۔انتخابات پھر انہی اداروں نے کرانے ہیں

اور بڑی پارٹیوں کا پھر مطالبہ ہوگا کہ فوج انکی نگرانی کرے۔سسٹم کو چلنے دیا جانا چاہیے۔ جمہوریت ہی مسائل کا بہترین حل ہے۔۔ضمنی انتخابات ہونے ہیں ان میں ہارے ہوئے لوگ اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کی کوشش کریں۔دشمن تو پاکستان کو تباہ و برباد کر دینے کیلئے سرگرم ہے۔ ہمیں دشمن کے ہاتھ کو نہ صرف توڑناہے بلکہ اسکی گردن کو بھی مروڑنا ہے۔دشمن کے ایجنڈے کو کچھ اندرونی ہاتھ بھی سپورٹ کررہے ہیں۔پاکستان مخالف قوتیں وہ اندرونی ہیں یا بیرونی ،ان کے سامنے ہمارے ادارے ڈٹ گئے ہیں۔بروقت انتخابات کا بلاشبہ کریڈٹ پاک فوج ،عدلیہ، الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو جاتا ہے۔یہ شخصیات اور ان کے زیر اثر کام کرنے والے ادارے اور لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس دوران جو شہید ہوئے وہ ہمارے ہیرو ہیں۔کرپشن کے چارجز سب کے اوپر ہیں بہت سے نیب کو بھی مطلوب ہیں۔ان کا احتساب نیب میں اور عدلیہ میں تو ہونا ہی ہے۔اگر تحریک کے نتیجے میں طالع آزما جاتے ہیں تو ان کی طرف سے کیا جانیوالا احتساب ناقابل برداشت ہوگا۔یہ لوگ ایسے احتساب کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لیے جمہوریت چلنے دی جانی چاہیے۔پاکستان کی خیر جمہوریت میں اور جمہوریت کی خیر اس کے صحیح طریقے سے روبہ عمل ہونے میں ہے۔جمہوریت کی خیر ہو

FOLLOW US