لاہور(ویب ڈیسک)پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ملک کی انتخابی سیاست میں بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ مرکز میں حکومت سازی کے لیے پنجاب کامیابی کی کنجی ہے۔ یہاں سے قومی اسمبلی کی پچاس فیصد سے زائد نشستیں ہیں۔عام تاثر یہی ہہ کہ جو بھی جماعت پنجاب جیت جائے
صحافی عمر دراز ننگیانہ (بی بی سی کے لئے) اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں۔۔۔اس کے لیے مرکز میں بھی حکومت بنانا اور چلانا، دونوں آسان ہوتے ہیں۔ بعض ماہرینِ سیاست کا ماننا یہ بھی ہے کہ پنجاب ہار کر اگر مرکز میں حکومت بنا بھی لی جائے تو اس کو چلانے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف صوبہ پنجاب میں اپنی جماعت کی حکومت بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے تو دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کو پنجاب میں اپنی روایتی حاکمیت برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔گزشتہ ایک دہائی سے پنجاب میں حکومت کرنے والی ن لیگ پر ایسا وقت کم ہی آیا ہے۔ تاہم حالیہ انتخابات میں وہ واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی اور صوبائی انتخابات میں 127 نسشتوں کے ساتھ پاکستان تحریکِ انصاف سے محض چار نشستوں کے فرق سے آگے ہے۔یعنی کسی جماعت کے پاس بھی حکومت بنانے کے لیے درکار 148 اراکینِ اسمبلی نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں پنجاب سے بطورِ آزاد امیدوار انتخابات جیتنے والے 28 امیدوار “نمبر گیم” میں خصوصی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔آزاد امیدواران کہاں جا رہے ہیں؟دونوں جماعتوں کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ آزاد امیدواران حاصل کر سکے۔
وہ جس طرف گئے اس جماعت کا پلڑا بھاری ہو گا اور اسے دیگر چھوٹی جماعتوں سے الحاق کی ضرورت شاید زیادہ نہیں پڑے گی۔تاہم ایسا کرنے کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف کو 28 میں سے 25 آزاد امیدواروں کی ہمایت درکار ہو گی جبکہ ن لیگ کو محض 21 کی۔دونوں جماعتوں کی جانب سے دعوے سامنے آئے ہیں کہ انہیں مطلوبہ آزاد امیدواروں کی ہمایت حاصل ہے اور وہ پنجاب میں حکومت بنائیں گے۔اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان سے پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہان کی ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کے سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ ان کی جماعت کو پنجاب میں ’18 آزاد امیداوروں اس ق لیگ کے 8 نشستوں سمیت خواتین کی نشستیں ملا کر 180 اراکین کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔‘اس طرح ان کی جماعت صوبے میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔پنجاب اسمبلی میں سابق قائدِ حزبِ اختلاف اور پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما میاں محمودالرشید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی جماعت کے مسلسل آزاد امیدواران سے رابطہ ہے۔کافی آزاد امیدوار ہماری جماعت میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اور آج تین مزید شمولیت کریں گے۔
پیر کے روز کے اختتام تک ہم پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے مطلوب اراکین حاصل کر لیں گے۔‘انہوں نے وضاحت کی کہ یہ آزاد امیدوار پاکستان تحریکِ انصاف کی حمایت کے ساتھ جماعت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں اور ان کی جانب سے اس ضمن میں دیا گیا حلف نامہ الیکشن کمیشن میں جمع کروایا جائے گا۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی دعوی کیا ہے کہ اس کے بھی آزاد امیدواروں سے رابطے اور انہیں زیادہ تر کی حمایت حاصل ہے۔ تاہم ان کی صحیح تعداد اور شناخت تا حال سامنے نہیں آئی۔کس کی مانی جائے؟صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا ماننا ہے کہ اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کے دعوے میں زیادہ وزن محسوس ہوتا ہے۔آزاد امیدواروں کو معلوم ہے کہ کون حکومت بنانے جا رہا ہے اس لیے وہ اسی طرف جائیں گے۔ مرکز میں بھی پاکستان تحریکِ انصاف حکومت بناتی نظر آ رہی ہے۔‘ایسی صورت میں آزاد امیدواروں کا جھکاؤ حکومت بنانے والی جماعت ہی کی جانب ہو گا۔ پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل ہونے والے زیادہ تر آزاد امیدوار ذرائع ابلاغ پر یا پھر سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آچکے ہیں۔ تاہم ن لیگ کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے،
انہوں نے جماعت کے اس دعوے کو دہرایا کہ ان کو بیشتر آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل ہے۔ تو وہ سامنے کیوں نہیں آتے؟اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’سامنے آئیں گے تو ان پر بھی شب خون مار دیا جائے گا۔ پہلے ہی ہماری جماعت کی قیادت اور سینیئر رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت جھوٹح مقدمات درج کر لیے گئے تھے۔‘ان کا دعوٰی تھا کہ ان کی جماعت پس پردہ رہ کر آزاد امیدواروں کی حمایت جیتنے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے اور پُر امید ہیں کہ صوبہ میں حکومت ان کی ہی بنے گی۔نمبر کہاں سے آتے ہیں؟گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر یہ خبریں اور تصاویر گردش کر رہی ہیں کہ حمایت حاصل کرنے کے لیے آزاد امیدواروں کو مراعات کے علاوہ رقوم کی پیشکش بھی کی جا رہی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے نااہل رکن جہانگیر ترین کی چند تصاویر بھی سامنے آئی ہیں جن میں وہ مبینہ طور پر آزاد امیدواروں کو لے کر اسلام آباد جا رہے ہیں۔تاہم اس حوالے سے کسی جماعت یا امیدوار کی جانب سے تصدیق یا تردید نہیں ہو پائی۔آزاد امیدواروں کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریکِ انصاف نے دعوٰی کیا ہے کہ انہیں پاکستان مسلم لیگ ق کی حمایت بھی حاصل ہے جس کے آٹھ امیدوار ہیں۔
دوسری جانب ن لیگ بھی دیگر جماعتوں سے رابطہ کر رہی ہے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی جس کی پنجاب میں چھ نشستیں ہیں، اس سمیت ق لیگ بھی شامل ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ان جماعتوں کی جانب سے انہیں مثبت جواب ملا ہے یا منفی۔کب پتہ چلے گا؟الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے حتمی نتائج کا نوٹیفیکیشن جاری کیے جانے کے بعد مرکز میں وزیرِ اعظم تو صوبوں میں وزرائے اعلٰی کا نتخاب ہوتا ہے جس میں تمام امیدواران اپنا ووٹ دیتے ہیں۔پنجاب میں اس انتخاب کے وزیرِ اعلی کے جس امیدوار کو 148 یا زیادہ اراکین کی جمایت حاصل ہو گی اس کی جماعت صوبے میں حکومت قائم کرے گی۔پاکستان لیجیسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانس پیرینسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس طرح اب کسی جماعت کو حکومت سازی کی دعوت دینے والا معاملہ ہی ختم ہو گیا ہے۔‘اس بات کا حتمی طور پر فیصلہ تو اس انتخاب ہی کے دن ہو گا تاہم احمد محبوب کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں بھی ’پاکستان تحریکِ انصاف بہتر پوزیشن میں ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرکز میں حکومت حاصل کرنے والی جماعت امیدواروں کی کئی امیدیں پوری کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔
‘اور بڑی وجہ وہ تاثر ہے جو الیکشن سے پہلے بھی پایا جاتا تھا اور اب اور بھی مضبوط ہوا ہو گا کہ کہ ملک میں جو طاقتور حلقے ہیں وہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حمایت کر رہے ہیں۔‘پنجاب اتنا اہم کیوں؟آبادی کی شرح اور اس کے تناسب سے قومی اسمبلی میں نشستوں کے علاوہ بھی پنجاب کی اہمیت ہے۔ پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ سنہ 1988 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی نے ملک میں حکومت قائم کی تھی تو پنجاب میں نہیں کر پائی تھی۔اس وقت پنجاب میں آئی جے آئی کے حکومت بن گئی تھی اور اس نے اس وقت کی وزیرِ اعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو تقریبا مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔‘اب حالات چونکہ کافی حد تک بدل چکے تاہم اس کے باوجود پاکستان تحریکِ انصاف اگر پنجاب میں حکومت بنانے میں ناکام ہوئی تو اس کو مرکز میں آسانی سے حکومت چلانے میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نہیں چاہے گی کہ اس کا روایتی ’قعلہ‘ اس سے لے لیا جائے۔ ’ایک تو وہ یہاں اپنا کوئی کام دکھا نہیں پائیں گے اور دوسرا ان کے جن امیدواروں کو انہیں چھوڑ کر جانا پڑا، ان کے لیے بھی کوئی آسرا نہیں ہو گا
جس کا مستقبل میں ن لیگ کو نقصان ہو گا۔وزیرِ اعٰلی پنجاب تو تحریکِ انصاف سے ہی ہو گا‘:پاکستان مسلم لیگ ن اس سوال پر زیادہ مشکل کا شکار نہیں ہے۔ دو مضبوط امیدواروں میں سابق وزیرِ اعلی پنجاب شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف شامل ہیں۔تاہم ن لیگ کے سینیئر رہنما کے مطابق ان دونوں میں سے حتمی فیصلہ جماعت کرے گی۔ ’اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ مرکز کے حوالے سے کیا پالیسی تشکیل دی جاتی ہے۔ اگر شہباز شریف قومی اسمبلی میں گئے تو حمزہ شہباز کو پنجاب میں ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔‘پاکستان تحریکِ انصاف غالباٌ اس سوال کے لیے تیار نہیں تھی۔ پی ٹی آئی سے وزیرِ اعلٰی کے عہدے کے خواہش مند اور تجویز کردہ کئی نام سامنے آئے ہیں جن میں سابق قائدِ حزبِ اختلاف پنجاب میاں محمودالرشید، سیکرٹری اطلاعات فواد چوہدری، لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ 125 سے انتخاب ہار جانے والی پی ٹی آئی کے امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد اور علیم خان کے نام نمایاں ہیں۔تاہم میاں محمود الرشید نے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تو وہ اسے احسن طریقے سے نبھانے کے لیے تیار ہیں تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ پارٹی چیئرمین عمران خان کریں گے جو چند روز میں متوقع ہے۔وزیرِ اعلٰی کے حوالے سے بات بھی سامنے آ رہی تھی کہ شاید ق لیگ نے حمایت کے بدلے پاکستان تحریکِ انصاف سے پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کا مطالبہ کیا ہے۔اس پر میاں محمودالرشید کا کہنا تھا کہ ’اس قسم کی ڈیل میں جماعتیں ہر قسم کے مطالبات کرتی ہیں مگر یہ بات تہہ ہے کہ پنجاب کا وزیرِ اعلٰی پاکستان تحریکِ انصاف ہی میں سے ہو گا۔‘