لاہور( ویب ڈیسک )میں اندھا ہوں اور اندھوں کی نگری میں رہتا ہوں میرے اردگرد بھی سب اندھے ہی رہتے ہیں انصافی، نونی اور پیپلئے بھی میری طرح نابینا ہیں ہم میں سے کسی کو بھی پورا منظر نظر نہیں آتا البتہ ہم میں سے ہر ایک نے اپنا اپنا الگ منظر نامہ بنا رکھا ہے
نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔بالکل ان چار اندھوں کی طرح جنہوں نے ہاتھی کو کبھی دیکھا نہیں تھا انہیں موقع دیا گیا کہ وہ ہاتھی کو اپنے ہاتھوں سے چھو کر بیان کریں تو ہاتھی کی ٹانگ پر ہاتھ پھیرنے والے اندھے نے کہا کہ ہاتھی کھمبے جیسا ہوتا ہے۔ دوسرے اندھے نے ہاتھی کی سونڈ پر ہاتھ پھیرا تو اس کو لگا کہ ہاتھی پانی کی مشک کی طرح کا ہوتا ہے اور جس اندھے نے ہاتھی کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا اسے لگا کہ ہاتھی اور بھینس میں کوئی فرق نہیں چوتھے اندھے نے ہاتھی کے پائوں دیکھے تو اسے گھوڑے سے مشابہہ قرار دیا۔ ہم سب اندھے اپنی نامکمل تصویر اور تعبیر کو ہی درست سمجھتے ہیں حالانکہ اندھے پورا منظر دیکھ ہی نہیں پاتے۔ بابا بلھے شاہ کی دنیا سب سے الگ تھی۔ معاشرتی اور مذہبی روایات کے باغی تھے وہ مَردوں کے معاشرے میں عورتوں کی طرح سرخ رنگ کے کپڑے پہنتے تھے رقاصہ کی طرح سرعام ناچتے تھے جج اور مُلا کو کھری کھری سناتے تھے جو کچھ ان کے اردگرد ہوتا تھا وہ اسے نفرت سے دیکھتے تھے عیاری، ہوشیاری، دھوکے بازی اور دھاندلی دیکھتے تو بےاختیار کہہ اٹھتے۔۔۔
چل بلّھیا چل اوتھے چلئے
جتھے سارے اَنّھے
میں بلھے شاہ کے اسی خیال کے مطابق اندھوں کی نگری میں ہوں۔ مجھے نہ پری پول دھاندلی دکھائی دی نہ انتخابی گھوڑوں کا ایک چراگاہ سے دوسری چراگاہ کی طرف سفر نظر آیا۔ نہ ہی مجھے کوئی بیمار جیل میں بغیر بستر تڑپتے نظر آیا نہ حوا کی کوئی بیٹی جیل میں سڑتی نظر آئی نہ مجھے منظر نامہ بدلنے کی سمجھ آئی۔ نابینا انصافی یہ سمجھتا ہے کہ نواز شریف کو اس کی کرپشن کی سزا ملی اور عمران خان کو لوگوں نے جتوا دیا۔ نابینا نونی یہ سوچتا ہے کہ نواز شریف پر جو الزامات ہیں وہ تو پرانے ہیں اصل بات، طاقتور طاقتوں سے کشمکش ہے جس کے بعد اسے ہروایا گیا نابینا پیپلیا یہ خیال کرتا ہے کہ زرداری نے بطور صدر، قومی مفادات کا خیال رکھا مگر پھر بھی ہمیشہ اسی کے احتساب کی بات کی جاتی ہے ۔ میں فقیر نابینا یہ سوچتا ہوں کہ یہ سب غلط ہیں صرف میں صحیح ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ’’صاحب نظر‘‘ نہیں جو ہماری آپس کی مخالفتوں، دشمنیوں ، حسد، کم ظرفی اور نفرت و انتقام سے اوپر اٹھ کر پورا منظر دیکھے اور اندھوں کی نگری سے اسے بینائووں کا دیس بنائے۔
نابینا انصافی بضد ہے کہ تبدیلی آ چکی ہے اب نئی نگری بننے والی ہے ایک بینا، سجاکھا رہنما عمران خان آ چکا ہے جو سب کچھ بدل دے گا کراچی میں امریکہ سے آئے ہوئے ایک بینا ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا سب کچھ بدلا بدلا سا ہے ہر طرف خوشیاں نظر آ رہی ہیں اور تو اور درخت بھی دھلے ہوئے ہیں کراچی میلا کچیلا نہیں صاف ستھرا نظر آ رہا ہے میں چونکہ نابینا ہوں اس لئے حیرت کا اظہار کیا تو ڈاکٹر صاحب نے فوراً جواب دیا ابھی بدلا کچھ نہیں مگر میرے محسوسات بدل گئے ہیں۔ بس اسی تبدیلی کو میں نابینا ہوتے ہوئے بھی محسوس کر رہا ہوں۔ یاد رکھیں سیاسی بینائی اس روز بہتر ہو گی جب انصافی نابینا، نونی نابینا کو برداشت کرنا سیکھ لے گا احتساب اور انتقام کا ڈنڈا روک دے گا اس کی بجائے انصاف اور معافی کارویہ اپنائے گا اسی طرح نونی نابینا بھی دھاندلی دھاندلی کرتے ہوئے انتخابات کو مسترد کرنے کا رویہ چھوڑ دے گا اور اسی طرح سسٹم کا حصہ بنے گا جس طرح باقی مظلوم بنتے رہے ہیں بے نظیر بھٹو کی جماعت کو 1990ء میں دھاندلی سے ہرایا گیا چند نشستیں دی گئیں مگر وہ نظام کا حصہ رہیں نابینا پیپلیا اس بار سیانا نکلا
کیونکہ بلاول بھٹو نے نوعمری کے باوجود بوڑھے سیاستدانوں کو صحیح مشورہ دیا کہ نظام کا حصہ رہو پارلیمان کا حلف اٹھائو اور پارلیمان کے اندر کی سیاست کو خالی مت چھوڑو۔ اس فقیر نابینا کی رائے بھی یہی ہے کہ سسٹم کو چلنے دیں اسی میں سے بہتری کا راستہ نکلے گا۔ اندھوں کی نگری سے خبر آئی ہے کہ مستقبل کے حوالے سے انصافی نابینوں میں دو گروپ بن گئے ہیں ایک گروپ عمران خان کو مشورہ دے رہا ہے کہ نئے پاکستان کو چلانے کے لئے ضروری ہے کہ مصالحانہ سیاست کا دور شروع کیا جائے عام معافی کا اعلان کیا جائے۔ ماضی میں جو ہوا سو ہوا۔ کڑے احتساب کا دور اپنے دور حکومت سے شروع کیا جائے ایمانداری اور انصاف کے اعلیٰ پیمانے اور معیار مقرر کئے جائیں اور پھر ان پر خود چل کر نئی مثال قائم کی جائے۔ جبکہ دوسرا گروپ کہہ رہا ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو انصافی پر مُک مکا کا الزام لگے گا،کرپشن کا نعرہ دب جائے گا اور تحریک انصاف کی مقبولیت کو نقصان پہنچے گا۔ یہ فقیر نابینا کہتا ہے کہ اگر احتساب اور انتقام کی رفتار یہی رہی تو ملک چلانا مشکل ہو گا جنوبی افریقہ کی طرح ’’سچ اور مصالحت کا کمیشن‘‘ بنایا جائے
اور ملک کو نئے سرے سے صاف تختی کے ساتھ چلایا جائے وگرنہ احتساب اور انتقام کا ا گلا مرحلہ معاشرتی انتشار اور خونی انارکی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ نونی نابینے اور پیپلئے نابینے بے شک شور مچائیں مگر نظام کو ناکام مت بنائیں اگر یہ نظام ناکام ہوا تو نونی پیپلئے اور انصافی تینوں ذمہ دار ہوں گے اور تینوں کا اکٹھا احتساب ہو گا ان میں سے پھر کوئی بھی نہیں بچے گا۔ 70سال کے تجربات کے بعد ہم نابینائوں کو ہاتھی کی پوری ہئیت کا اندازہ ہو جانا چاہئے اگر ہم ماضی کی طرح اپنے ٹٹولے ہوئے حصے کو ہی اصلی ہاتھی مانتے رہے تو ہم کبھی حقیقت حال نہیں جان سکتے۔ کنویں کے مینڈک، کنویں ہی کو دنیا سمجھتے ہیں۔ کاش عمران خان بینا بن کر فیصلے کرے، غصے کو جھٹکے، وکٹری اسپیچ جیسے جذبے سے کام لیتے ہوئے کھلے دل سے نیا آغاز کرے فوراً لوکل باڈیز متحرک کرے شہریوں کو سہولتیں دینے کے لئے اصلاحات کرے۔ معیشت کی زبوں حالی پر سنجیدہ اقدامات کرے۔ فارن پالیسی کی نوک پلک کو سنوارے، دفاع وطن کو اور مضبوط بنائے، حزب اختلاف کے ساتھ مثالی تعلقات کی بنیاد رکھے اندھوں کی نگری کو اگر بدلنا ہے تو عمران خان کو اس میں اہم کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ اب دعوئوں کا نہیں آزمائش کا وقت ہے۔