شام سے تعلق رکھنے والی خاتون راغد کی شوہر کی تلاش محض 24 گھنٹوں میں ہی ایک ڈیٹنگ ایپ کی مدد سے ختم ہو گئی کیونکہ انھیں لبنان کے شہری ابراہیم کی صورت میں انھیں ایپ کے ذریعے ایک اچھا پارٹنر ملا اور چند ہی دنوں میں اُن کی شادی ہو گئی۔ اس ہی ایپ کی مدد رومی اور فاطمہ آپس میں ملے اور ملنے کے دو ہی ہفتے کے اندر وہ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ اِسی طرح کی کہانی لبنان سے تعلق رکھنے والے شہری حسین اور افریقہ کی مریم بھی ہے جن کا حال ہی میں کورونا کی وبا کے دوران زوم پر نکاح ہوا ہے۔ ان سبھی جوڑوں کی ملاقات جس ڈیٹنگ ایپ پر ہوئی اس کا نام ہے ’مز میچ‘ ہے جو مسلمان صارفین کو اپنے ساتھی کی تلاش میں مدد فراہم کرتی ہے۔ لیکن مز میچ کو اب قانونی مشکلات کا سامنا ہے۔ ٹنڈر اور میچ جیسی ڈیٹنگ ایپس کی مالک کمپنی نے کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کے الزام میں مزمیچ پر انگلینڈ اور امریکہ کی متعدد عدالتوں میں مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ مزمیچ کو پاکستانی نژاد شہزاد یونس نے سنہ 2011 میں ویب سائٹ کے طور پر شروع کیا تھا۔ شہزاد پیشے کے لحاظ سے ایک بینکر تھے۔ شہزاد نے حال ہی میں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس کیس کے حوالے سے بتایا کہ برطانوی عدالت میں اس مقدمے کی سماعت 17 اور 18 جنوری 2022 کو ہو گی۔ واضح رہے کہ میچ گروپ نے مز میچ کو خریدنے کی متعدد کوششیں کی ہیں لیکن تاحال یہ گروپ ناکام رہا ہے۔
میرے مرنے کے بعد اپنے تمام طبی اعضاء عطیہ کرنے کا اعلان کرتی ہوں ۔۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کا بڑا اعلان
سنہ 2019 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شہزاد یونس نے بتایا تھا کہ ’اس وقت مسلمانوں کے لیے یا تو بہت سادہ سی ویب سائٹس تھیں یا ایسی بڑی ڈیٹنگ ایپس تھیں جو ہماری ثقافت کو بالکل نہیں سمجھتیں۔‘ انھوں نے کہا تھا کہ ’مسلم معاشرے میں ہم میں سے بہت سے لوگ شادی کے لیے میچ میکرز (رشتہ کروانے والوں) پر انحصار کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں۔ کمیونٹی میں ’رشتے والی آنٹیاں‘ ہوتی ہیں جو خاندانوں کو جانتی ہیں اور وہ کسی خاندان کے بیٹے کو دوسرے خاندان کی بیٹی سے ملاتی ہیں۔‘ لیکن نئے زمانے کے لیے نئے حل کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا احساس شہزاد یونس کو تھا۔ مزمیچ کیسے کام کرتا ہے؟ کمپنی کے مطابق یہ ’غیر شادی شدہ (سنگل) مسلمانوں کے ملنے‘ کی جگہ ہے جس کا طریقہ کار دیگر ڈیٹنگ ایپس کی طرح ہے جن پر صارفین خود کو رجسٹر کرتے ہیں اور صارفین ہی کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر انھیں ممکنہ پارٹنرز تجویز کیے جاتے ہیں۔ چونکہ اس کا مقصد مسلمان صارفین کو اپنے لیے ساتھی کی تلاش میں مدد فراہم کرنا ہے اسی لیے یہ ایپ صارفین کو اُن کی ذاتی اور مذہبی ترجیحات کے لحاظ سے رشتہ تجویز کرتی ہے۔ مثلا مذہب فرقہ، نماز کی ادائیگی یا نماز نہ ادا کرنا، شراب نوشی اور سگریٹ نوشی کی عادات وغیرہ۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ دسمبر 2021 تک 50 لاکھ صارفین اس ایپ پر رجسٹر ہو چکے تھے جن میں سے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد کامیابی سے اپنا پارٹنر تلاش کر چکے ہیں۔ یہ ایپ کیسے شروع ہوئی؟ شہزاد یونس ایک بینک میں کام کرتے تھے۔ ایپ کو موجودہ شکل دینے سے پہلے انھوں نے سنہ 2011 میں اسے ایک ویب سائٹ کے طور پر اپنے ’سائڈ پراجیکٹ‘ کی طرح شروع کیا تھا۔ اس کے پیچھے اُن کا فلسفہ تھا کہ ’مسلمان ڈیٹ نہیں کرتے، وہ شادی کرتے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’عام طور پر مین سٹریم سروسز ڈیٹنگ کے بجائے شریک حیات کی تلاش میں مسلمانوں کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکافی تھیں۔ سنہ 2011 میں مزمیچ سائٹ اُس وقت کے لحاظ سے کافی انقلابی تھی۔‘ انھوں نے سائٹ پر کوئی ماہانہ فیس نہیں عائد کی تھی لیکن تصویر دیکھنے اور بات کرنے کے لیے معمولی فیس لیتے تھے۔ سائٹ ترقی کرتی رہی اور چند شادیاں کرانے میں بھی کامیاب رہی۔
مسلمانوں کے لیے کوئی مناسب متبادل نہ ہونے کی صورت میں اس سائٹ میں ممکنہ صلاحیتیں اور مواقع بظاہر موجود تھے۔ انھیں یہ احساس ہوا کہ سمارٹ فون کے پھیلاؤ کی وجہ سے سائٹ کو اب موبائل ایپ کی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ شہزاد یونس نے نوکری سے استعفی دیا اور بقول ان کے انھوں نے اپنے بیڈ روم سے مز میچ کی موبائل ایپ بنانے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’میں ہر صبح چھ بجے اٹھتا تھا اور تقریباً ایک یا دو بجے بستر پر جاتا تھا۔ میں اپنے بیڈ روم سے کام کر رہا تھا اور یہ کافی مشکل تھا۔ مجھے بالکل شروع سے ایپ بنانا سیکھنا پڑا۔‘ بالآخر وہ اگلے چند مہینوں میں ایپ کا آئی فون اور اینڈرائیڈ ورژن بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مزمیچ ایک واحد ایپ تھا، اور ہے، جسے میں نے بنایا ہے۔ یہ مسلم شادیوں کے لیے پہلا عالمی ایپ ہے۔‘ شہزاد یونس کی پیدائش اور پرورش مانچسٹر میں ہوئی تھی۔ انھوں نے بتایا تھا کہ ’میں ہر ممکن طریقے سے اس کی تشہیر کرتا تھا۔ نماز کے بعد مساجد کے باہر کھڑے ہو کر کتابچے تقسیم کرتا تھا اور مسلم علاقوں میں گاڑیوں کی ونڈ شیلڈز پر اشتہاری کارڈز لگاتا تھا۔‘ مزمیچ اور میچ گروپ کے درمیان تنازع کیسے شروع ہوا؟ یونس نے ایپ کو امریکہ اور برطانیہ میں رجسٹر کیا لیکن میچ گروپ نے اس کی یورپی ٹریڈ مارک رجسٹریشن دیکھی اور اس پر اعتراض کیا کہ یہ ’دل‘ پر مبنی ان کے ڈیزائن ٹریڈ مارک کی نقل ہے۔ یونس کے مطابق میچ کمپنی کے وکلا نے انھیں خطوط بھیجے کہ وہ کسی اور ڈیٹنگ کمپنی کو اپنے نام پر انگریزی لفظ ’میچ‘ رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انھوں نے مزمیچ کی شکل اور لوگو میں تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا لیکن مزمیچ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ یونس نے چند روز قبل اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے لوگو کی شکل اور ڈیزائن تبدیل کر دیں۔
کرونا وائرس کے وار جاری ، حکومت نے لاک ڈائون اور اسکول بند کرنے سے متعلق بڑا اعلان کر دیا
ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہم میچ گروپ جیسے لگیں، ان سے منسلک ہونے سے ہمارا کاروبار خراب ہوتا ہے۔‘ جلد ہی میچ گروپ نے 15 ملین ڈالر میں مزمیچ کو خریدنے کی پیشکش کی۔ یونس نے اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ میچ گروپ نے رقم بڑھا دی لیکن یونس نے پھر بھی یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ میچ گروپ نے مزید دو بار کوشش کی۔ ان کی آخری پیشکش 35 ملین ڈالر کی تھی لیکن وہ یونس کو مزمیچ فروخت کرنے کے لیے راضی نہیں کر سکے۔ یونس نے لکھا کہ ’چند ماہ بعد انھوں نے عدالتوں میں ٹریڈ مارک کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے مزمیچ پر مقدمہ دائر کر دیا۔‘ وہ ٹوئٹر پر بتاتے ہیں کہ ’ہم دل کو مزمچ کے ٹریڈ مارک کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ ان کے ٹریڈ مارک ڈیزائن کی رجسٹریشن سے پہلے سے۔‘ میچ گروپ نے مزمیچ پر امریکہ میں بھی مقدمہ درج کیا تھا لیکن یونس نے ایپ میں چند تبدیلیاں متعارف کر کے معاملہ ختم کر دیا تھا۔ سنہ 2019 میں کمپنی نے لندن ٹیوب ریل گاڑیوں اور مانچسٹر اور برمنگھم کے بسوں میں ایک اشتہاری مہم چلائی تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ’حلال، کیا آپ کو میری تلاش ہے؟‘ فی الحال تو میچ اور مزمیچ کے جوڑے کو انصاف کی تلاش ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ، روایتی حریف کب ٹکرائیں گے؟ شائقین کیلئے بڑی خبر