زمین پر سورج گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند دورانِ گردش زمین اور سورج کے درمیان آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے سورج کامکمل یا کچھ حصہ دکھائی دینا بند ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں چاند کا سایہ زمین پر پڑتا ہے۔ چونکہ زمین سے سورج کا فاصلہ زمین کے چاندسے فاصلے سے 400 گنا زیادہ ہے اور سورج کا محیط بھی چاند کے محیط سے 400 گنا زیادہ ہے، اس لیے گرہن کے موقع پر چاند سورج کومکمل یا کافی حد تک زمین والوں کی نظروں سے چھپا لیتا ہے۔ سورج گرہن ہر وقت ہر علاقے میں نہیں دیکھا جا سکتا،اس لیے سائنسدانوں سمیت بعض لوگ سورج گرہن کا مشاہدہ کرنے کے لیے دور دراز سے سفر طے کرکے گرہن زدہ خطے میںجاتے ہیں۔ مکمل سورج گرہن ایک علاقے میں تقریباً 370 سال بعد دوبارہ آ سکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ سات منٹ چالیس سیکنڈ تک برقرار رہتا ہے۔ البتہ جزوی سورج گرہن کو سال میں کئی دفعہ دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں رواں سال 2چاند 2سورج گرہن ہوئےٹونٹی20کا پہلا چاند گرین10 اورگیارہ جنوری کی درمیانی شب کو ہوا تھا جو پاکستان میں بھی نظرآیا ،،،رواں سال کا دوسرا چاند گرہن 5اور 6جون کی درمیانی شب کو جبکہپہلا سورج گرہن 21جون کو ہوا جو پاکستان میں دیکھا گیا تھا
شاہ رخ کے بیٹے کو گرفتار کیوں کیا گیا؟ بھارتی وزیراعلیٰ نے بڑا انکشاف کردیا
اور اب رواں سال کا چھوتھا اور آخری سورج گرہن 14دسمبر کو دیکھا جائے گا ،سال 2020 کا پہلا چاند گرہن پاکستان کے مقامی وقت کےمطابق صبح دس بج کر 8 منٹ پر شروع ہواجبکہ مکمل گرہن 12 بج کر 10 منٹ پر لگا تھا سال کے پہلے چاند گرہن کے نظارے کو دنیا بھر میں دیکھا گیا تھا ۔۔۔اور اب سال کا آخری گرہن لگنے جا رہا ہے اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا پہلے سورج گرہن کے متعلق کہنا تھااس سال 2 بار سورج کو اور 4 بار چاند کو گرہن لگے گا، اس سال کادوسرا گرہن 14 دسمبر کو ہو گا۔انہوں نے 14 دسمبر کو ہونے والے رواں سال کے دوسرے سورج گرہن سے متعلق بتایا کہ وہ پاکستان میں نہیں دیکھا جا سکے گا۔یاد رہے کہ ا س سے قبل گزشتہ سال کا آخر ی سورج گرہن دسمبر کے مہینے میں 26 دسمبر کو ہوا تھا جس کا نظارہ پوری دنیا نےکیا ےاج اس کا دورانیہ چھ گھنٹے تک رہا تھا ۔ جس کی وجہ سے طاقت ور ترین سورج گرہن کو ماہرین نے رنگ آف فائر کا نام بھی دیا تھا۔ ناظرین جب انسان کا علم بہت محدود تھا تو توہم پرستی بھی عروج پر تھی، ہر شے جو پسند آتی تھی اسے خوش قسمتی اور جس چیز سے خوف آتا تھا اسے عذاب سے جوڑ دیا جاتا تھا، گرہن بھی ایسا ہی عمل تھا۔سورج گرہن فلکیاتی اعتبار سے اجرام فلکی کے گردش کے دوران رونما ہونے والا معمول کا واقعہ جبکہ مذہبی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی اہم نشانیوں میں سے ایک ہے۔تاہم اس سے کئی توہمات بھی وابستہ ہیں، جس میں ایک یہ بھی ہے کہ سورج گرہن اقتدار منتقل ہونے سمیت عالمی سیاست میں بڑی تبدیلیاں لاسکتا ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ 1999 میں سورج کو لگنے والے مکمل گرہن کے بعد 2 ماہ کے عرصے میں ہی اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا، اس کے علاوہ دیگر عقائد میں خوف کے خیالات شامل ہیں، قدیم چین میں لوگ سورج گرہن کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جگہ جمع ہو کر زور سے چیختے تھے، ان کا ماننا تھا کہ ایک بڑا سانپ چاند کھارہا ہےجسے شور کے ذریعے ڈرا کر روکنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ کچھ کا ماننا ہے کہ سورج گرہن کے دوران حاملہ خواتین کو کوئی کام نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی باہر نکلنا چاہیئے اس کے ساتھ تیز دھار والی اشیا سے دور رہنا چاہیے۔
مہنگائی میں اضافہ اور کرنسی کی قیمت میں کمی ، حکومت نے وزیرخارجہ کو عہدے سے ہٹادیا۔
ان توہمات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سورج گرہن کے دوران جراثیم آتے ہیں لہذا کھانے پینے کی تمام اشیا کو ڈھک کر یا فریج میں رکھا جاتا ہے۔ایسے مواقع پر کچھ ممالک میں عام تعطیل کا اعلان بھی کیا جاتا ہے۔اسی طرح 20 سال کے طویل عرصے بعد پاکستان میں نظر آنے والے سورج گرہن کے موقع پر لوگوں کی جانب سے عجیب و غریب افعال دیکھنے میں آئے اور کراچی کے ساحل پر انہوں نے اپنے ذہنی بیمار بچوں کو اس طرح ریت میں دبایا کہ صرف سر باہر رہا۔ان افراد کا ماننا ہے کہ اس طرح کرنے سے بچوں کی بیماری دور ہوجائے تاہم سائنسی یا مذہبی اعتبار سے اس دعوے کی حقیقت ثابت نہیں۔مذہب کی روشنی میں گرہن اور اس سے وابستہ توہمات کی حقیقت کیا ہے ؟اس حوالے سے معروف عالم دین نے قرآنی آیات اور واقعات کا حوالہ دے کر بتایا کہ ‘1400 سال قبل عرب میں بھی یہ عقیدہ تھا کہ گرہن کا تعلق کسی بڑی شخصیت کی موت و حیات سے ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کےمطابق سورج گرہن یا چاند گرہن کا تعلق کسی کی موت یا زندگی سے نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ کے تشکیل کردہ نظام کے مظاہر ہ ہیں عالم دین کہتے ہیں کہ اس طرح کے توہمات مثلاً سورج گرہن کے طبعی اثرات حاملہ خواتین یا دیگر افراد پر مرتب ہوتے ہیں یہ غلط ہیں اور دین میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں۔ہاں ایمان والوں کو اس قسم کے توہمات پر یقین کرنے کے بجائے خود احتسابی اور آخرت کی فکر کرنی چاہیے اس کے علاوہ نماز کسوف کی ادائیگی کا اہتمام لازمی ہونا چاہیے