آج کے دور میں جہاں ہر فیملی کو علیحدہ رہنے کی عادت ہے اور وہ تمام اہلخانہ کے ساتھ نہیں رہتے وہیں ہیں کوئٹہ میں ایک ایسا خاندان بھی ہے جس کے 112 ممبر ہیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب ایک ساتھ رہتے ہیں ۔گھر کے بڑے بیٹے حاجی حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ ہمارا سلیمان قبیلے سے تعلق ہے اور ہم 18 بھائی زندہ ہیں جبکہ 4 بھائی انتقال کر چکے ہیں اور 21 سے 22 بہنیں ہیں۔گھر کے بڑے بیٹے کا ہی کہنا ہے کہ ہمارے والد صاحب کی 4 شادیاں ہیں جن میں سے ہماری 1 والدہ انتقال کر چکی ہیں اور باقی یہ مکمل اولاد ہے۔اپنی بارے میں بتاتے ہوئے بڑے بیٹے کا کہنا تھا۔کہ پرائیویٹ حج ٹریولر کا کام ہے میرا اور میری اس وقت 2 شادیاں ہیں جن میں سے 15 بچے ہیں اور میرا چھوٹا بھائی جس کا نام محیب اللہ ہے وہ ان تمام چھوٹے بچوں کو اسکول اور مدرسے کے بعد گھر آنے پر علیحدہ سے سیکھاتا ہے کہ اپنے بڑوں کا ادب کس طرح کرنا ہے۔مزید یہ کہ کھانا کھاتے وقت کس طرح بیٹھنا ہے،
لاہور ہائیکورٹ نے علی ترین کو بھجوائے گئے ایف بی آر کے نوٹسز معطل کر دیے
کس ہاتھ سے کھان اکھان ہے مختصراََ یہ کہ ہر طرح کے اداب سیکھانا اس کی زمہ داری ہے کیونکہ یہ گھر میں اس وقت سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔انہوں نے سوشیالوجی میں ماسٹر کر رکھا ہے اور ابھی پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔آپ سب یہی سوچ رہے ہو گے اتنے بڑے خاندان کا کھان اکیسا ہوتا ہوگا ؟ تو سنیے۔اس گھر کا تما خرچہ ان کے والد صاحب کے ہاتھ میں جن کا نام عجیب اللہ خان ہے۔ گھر کا راشن منگوانے کیلئے ایک مزدا نما ٹرک رکھا ہوا ہے اور ایک ماہ میں صرف ایک محتاط اندازے کے مطابق 4 سے 6 لاکھ روپے لگ جاتے ہیں۔50 کلو آٹا ایک دن میں استعمال ہوتا ہے ۔یہی نہیں بچوں کو کچھ ماہ کے بعد پکنک پر لے جاتے ہیں جس کیلئے ہم نے ایک ڈیو بس رکھی ہوئی ہے، زیادہ تر پکنک کیلئے زیارت یا پھر ایک اور جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے کیونکہ کوئٹہ میں گھومنے کی اتنی جگہ نہیں ہے۔ پکنک کے دوران جہاں ایک سے ڈیڑھ دنبہ کی کڑاہی بنا کر بچوں کو کھلاتے ہیں اور انکی اس طرح تفریح ہو جاتی ہے۔اس کے علاوہ اب آپ کو بتاتے ہیں کہ اتنا بڑا خاندان رہتا کہاں ہے تو یہ خاندان ایک ایسے گھر میں رہتا ہے جس کے 33 کمرے ایک کچن، 1 سے 2 با تھ روم اور 3 بیٹھک ہیں یہ گھر انکا 2 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا۔اگر مہمانوں کی بات کی جائے تو ہمارے یہاں جو بھی مہمان آتا ہے تو ہم سب انکی خود خدمت کرتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں یہ بھی رواج ہے
“میرے بیٹے کی رہائی تک گھر میں یہ چیز نہیں پکے گی” گوری خان نے سٹاف کو حکم دے دیا
کہ انکی خدمت کیلئے مزدور رکھ لیے جائیں مگر ہمارا ضمیر ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔واضح رہے کہ گھر کے دونوں بڑے بیٹے اور انکے والد صاحب کا کہنا ہے کہ سب ایک ساتھ رہتے ہیں تو ہر بوجھ اور بڑے سے بڑا غم بھی کم لگتا ہے جبکہ ہم سب ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔لیکن جب کوئی خوشی آتی ہے تو بھی ہم اسے جم کر مناتے ہیں جس سے خؤشی کا مزہ اور بھی دوبالا ہوجاتا ہے۔تو ہماری تو آج کی دنیا سے بس یہی درخواست ہے کہ علیحدہ نہیں بلکہ والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ ہی رہیں۔
“میں نے یا اے آر وائی نے اسحاق ڈار سے معافی نہیں مانگی” ارشد شریف نے واضح کردیا