کراچی: معروف دینی سکالراور سوشل میڈیا پر اپنے منفرد انداز سے شہرت حاصل کرنے والے مفتی طارق مسعود نے گذشتہ شب کراچی کے گورنر ہاؤس میں وزیراعظم عمران خان سے علماء و مشائخ کی ملاقات کا ایسا تفصیلی احوال بتا دیا کہ عمران خان کی مخالفت کرنے والےدینی حلقے بھی حیران و پریشان رہ جائیں ۔ تفصیلات کے مطابق یوٹیوب چینل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مفتی طارق مسعود کا کہنا تھا کہ میری وزیراعظم عمران خان سے پہلی ملاقات تھی اس سے پہلے میری اُن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی پہلے میں نے انہیں کبھی دور سے بھی نہیں دیکھا ،گورنر ہاؤس جانے سے قبل ذہن میں تھا کہ بہت زیادہ سیکیورٹی اور وزیراعظم کا بہت زیادہ پروٹوکول ہو گا لیکن وہاں بہت سادگی دیکھنے میں آئی ،گورنر ہاؤس میں بہت عام اور سادہ سا ماحول تھا ،دیگر علماء بھی وہاں موجود تھے،وزیراعظم کی فزیکل فٹنس سے میں بہت متاثر ہوا ،بعض لوگ ویڈیوز میں اچھے لگتے ہیں لیکن جب حقیقت میں دیکھا جائے تو اچھے نہیں لگتے ،بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ویڈیو میں اچھے نہیں لگتے لیکن حقیقت میں وہ زیادہ اچھے لگتے ہیں ،وزیراعظم کی فٹنس کا جو میرے دماغ میں تصور تھا 70 سال کی عمر میں اس سے زیادہ فٹنس مجھے نظر آئی۔
قومی ترانے کے الفاظ اور دھن میں تبدیلی ۔ حکومت نے حقائق عوام کوبتادیا۔
انہوں نے کہا کہ جب وزیراعظم عمران خان آ کر بیٹھے تو گورنر عمران اسماعیل نے مفتی عبد الرحیم کو مائیک دیا کہ آپ آغاز کریں ،یہ دیکھ کر مجھے اچھا لگا کہ یہاں علماء کو عزت دی جا رہی ہے،مفتی عبد الرحیم نے اپنی گفتگو میں حاکم اور رعایا کی ذمہ داریوں کے حوالے سے گفتگو کی،وزیراعظم نے جب اپنی بات کا آغاز کیا تو میں حیران رہ گیا کہ وہی موضوع جس پر میں پندرہ سال سے چیخ رہا ہوں اُنہوں نے اپنی بات کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ “ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو گیا ہے ،میں اٹھارہ سال کی عمر میں برطانیہ گیا تھا ،وہاں اس وقت طلاق کا ریشو 14خاندانوں میں سے ایک تھا ،اب گیا ہوں تو طلاق کی شرح 60 فیصد ہو گئی ہے،میں نے یورپ کو بہت قریب سے دیکھااور بہت قریب سے سمجھا ہے ،اب وہی کلچر ہمارے معاشرے میں آ رہا ہے ،ریپ کےواقعات بڑھ رہےہیں،شائداسلام جتنافیملی سسٹم بچانے پر جتنا زور لگاتا ہے اتنا کسی اور چیز پر نہیں اور اسی وجہ سے اسلام نےپردے کا حکم دیا ہے”۔
چودھری نثار علی خان کی تحریک انصاف میں شمولیت کی تصدیق ہوگئی ۔ پاکستانی سیاست میں بڑی ہلچل۔
مفتی طارق مسعود کا کہنا تھا کہ پہلی دفعہ میں نے براہ راست وزیراعظم عمران خان سے کوئی بات سنی اور وہی بڑی خاندانی بات سننے کو ملی، مجھے تو بہت اچھا لگا اور کوئی بھی یہ بات کرتا تو مجھے اچھا لگتا ،وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر کوئی شخص یہ بات کرے اور اتنے حساس ایشو کو اس وقت اٹھائے جب پوری دنیا ہی فیملی سسٹم کو ختم کرنے میں لگی ہوئی ہے،ایسے میں ہمارے حاکم کی طرف سے یہ بات جانا بہت حوصلہ افزاء ہے ،وزیراعظم نےعلماء سے مطالبہ کیا کہ آپ لوگ یونیورسٹیوں میں جائیں اور جہاں بھی یہ طوفان بدتمیزی برپا ہے ،وزیراعظم نے خود کہا کہ ٹک ٹاک پر ہم نے پابندی لگائی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود موبائل پر بہت کچھ آ رہا ہے اور بہت کچھ ہم روک بھی نہیں سکتے ،ایسا ممکن نہیں ہے کہ بالکل ہی ہم اس کو ختم کردیں یا سب کچھ ہمارے اختیار میں ہو ،جتنی تیزی سے یہ سب کچھ پھیل رہا ہے اگر علماء یونیورسٹیز اور کالجز میں جا کر بیان کریں اور نئی نسل کو اس سے آگاہ کریں تاکہ اس طوفان کا راستہ روکا جا سکےاور ہمارا خاندانی نظام بحال ہو ،اس کے لئے پھر وزیراعظم نے علماء سے تجاویز مانگیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس ملاقات میں علماء نے وزیراعظم سے گریلو تشدد اور کم عمری میں قبول اسلام بل کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا اور کہا گیا کہ یہ دونوں بل خلاف اسلام ہیں،جس پروزیراعظم نےدوٹوک انداز میں کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ یہ بل پاس ہو جائیں ،علماء کی طرف سےپھر یہ سوال کیا گیا کہ یہ دونوں بل پیش کیسے ہو گئے؟جس پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں بہت سارے سازشی عناصر ہیں ،وہ سازشی عناصر اس طرح کے بل پیش کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے،یہ ہر دور میں ہوتےہیں اور ہوتے رہیں گے ،اِنہیں پیش کرنے کو ہم نہیں روک سکتے لیکن پاس ہونے کے لئے اسمبلی میں ہمارے پاس آئے گا تو یہ ناممکن ہے کہ پاس ہو جائیں ،وزیراعظم کا اس معاملے پر “ایبسولوٹلی ناٹ “والا سٹائل تھا ،جس پر علماء نے اظہار اطمنان کیا ۔
مفتی طارق مسعود کا کہنا تھاکہ وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ میڈیا والے کہتے تھے کہ ہم مجبور ہیں، جس میں بے حیائی نہ ہو وہ ڈرامہ چل نہیں سکتا ،میں ترکی کا “ارتغرل غازی” ڈرامہ بھی پاکستان اسی نیت سے لے کر آیا ، اب میں میڈیا والوں کو کہتا ہوں کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بے حیائی دکھائے بغیرکوئی ڈرامہ چل نہیں سکتا ؟وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جب تک ہم بے حیائی کا متبادل نہیں لائیں گے تو اس پر پابندیاں نہیں لگا سکتے۔معروف عالم دین کا کہنا تھا کہ جہاں کچھ خرابیاں ہیں حکمرانوں میں وہاں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں،ہم جو ہر وقت تنقید کرتے ہیں یہ بھی درست نہیں،میرا تحریک انصاف سے تعلق نہیں لیکن آپ کا کسی بھی سیاسی تنظیم سے تعلق ہو ،جب آپ کا کوئی بھی حاکم ہو ،اگر علماء اُنہیں اچھے انداز سے نصیحت کریں اور اُن کی خامیوں کو بھی عزت کے ساتھ بیان کریں تو میں نہیں کہتا کہ شر 100 فیصد ختم ہو جائے گا لیکن شر کم ضرور ہو گا ،اگر ہماری قوم کا یہ مزاج بن جائے اور نعرے بازی گالم گلوچ اور دیگر چیزوں سے احتراز کریں تو میرا خیال ہے بہت سا خیر کا کام ہو سکتا ہے ،اتنا بھی ہمیں نا امید نہیں ہونا چاہئے جتنا ہماری قوم نا امید ہوئی ہے ،ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنا کام پورا کریں بغیر کسی لالچ کے۔
ٹی 20 ورلڈکپ سکواڈ میں تبدیلیاں، کونسے کھلاڑی باہر اور کونسے سکواڈ میں شامل ہونگے؟ اہم خبر آگئی
مفتی طارق مسعود نے کہا کہ حکمرانوں کے پاس جانے والے علماء کی دو قسمیں ہیں ،ایک وہ ہیں جو اپنے مفاد کے لئے جاتے ہیں اور دوسرا وہ ہیں جو نصیحت کے لئے جاتے ہیں ،اسلام میں علماء کو حکمرانوں کے پاس چاپلوسی کے لئے جانے سے منع کیا گیا ہے ،اگر علماء عہدے حاصل کرنے اور اپنے مطلب کی بجائے اصلاح کے لئے حکمرانوں کے پاس جاتے ہیں تو یہ تو اسلاف کی سنت ہے۔انہوں نے کہا کہ جب میں وہاں گیا ہوں تو ہمارا تو خیال تھاکہ بڑے سموسے ،پکوڑے، کباب اور چٹنیاں آئیں گی لیکن وہاں تو چائے کے چند کپ آئے اور مجھے وہ بھی نہیں ملا لیکن ہمیں یہ بھی اچھا لگا ۔