اسلام آباد : پاکستان کے سابق سفیر کی بیٹی نور مقدم قتل کیس سامنے آیا تو ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی متاثرہ لڑکی کی ہی کردار کشی کی گئی ، ٹویٹر پر نور مقدم کے ظاہر جعفر سے مبینہ افئیر اور نور مقدم کے ظاہر جعفر کے ساتھ لیونگ ریلیشن شپ میں رہنے پر بھی کئی تبصرے کیے گئے تھے۔ اینکر پرسن عمران ریاض خان نے اپنے وی لاگ میں نور مقدم کی نہ صرف کردار کشی کی بلکہ ایک زیر تفتیش کیس کی کچھ تفصیلات اور ڈیٹا بھی شئیر کردیا جس پر انہیں سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اسی حوالے سے اب معروف مارننگ شو ہوسٹ اور سینیٹر فیصل سبزواری کی اہلیہ مدیحہ نقوی نے دعویٰ کیا ہے کہ نور مقدم کی کردار کشی کرنے والے اینکر عمران خان ملزم ظاہر جعفر کے والدین کے وکیل کے دوست ہیں۔
لاہور کی گوالمنڈی سے بہترین کھانا ملتا ہے،مریم اپنے بیٹے کی شادی یہاں کریں
ایک اور پوسٹ میں مدیحہ نقوی نے ملزم ظاہر جعفر کے والدین کے وکیل کی تصویر بھی پوسٹ کی۔ مدیحہ نقوی کی جانب سے شئیر کیے گئے ایک اور سکرین شاٹ میں اینکر عمران خان اور وکیل میاں علی اشفاق کو اکٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر سے بظاہر معلوم ہوتا ہے دونوں کے درمیان اچھی دوستی ہے۔۔واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل عمران ریاض خان کی اس ویڈیو میں اُن کا کہنا تھا کہ نور مقدم کا جو لوگ مقدمہ لڑ رہے ہیں، کیا اُن کو معلوم ہے کہ نور مقدم کا گذشتہ چھ ماہ میں اپنے والد کے ساتھ کتنی مرتبہ رابطہ ہوا؟ نور مقدم کے والد نے اُسے آٹھ مرتبہ میسج کیا جس پر نور مقدم نے صرف تین مرتبہ جواب دیا ۔ یہ تو تعلق تھا، لیکن جس بندے نے اُس کو قتل کیا اُس کے ساتھ نور مقدم کے گذشتہ چھ ماہ میں سینکڑوں رابطے ہیں۔ انہوں نے اپنی وی لاگ میں اسلام کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اسلام میں نامحرم کا کنسیپٹ ہے ، نہ ہی ہمارا معاشرہ ایسے تعلقات کی اجازت دیتا ہے۔ نور مقدم کا جہاں تعلق ہونا چاہئیے تھا وہاں تھا نہیں اور جہاں نہیں ہونا چاہئیے تھا وہاں تعلق تھا اور سینکڑوں رابطے بھی تھے۔
طالبان کی افغان سر زمین پر قبضے میں تیزی ۔ آرمی چیف کی برطرفی کے بعد وزیر خزانہ بھی ملک چھوڑ گئے
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی چیزوں کے نتائج ایسے ہوتے ہیں۔ عمران ریاض خان کا یہ ویڈیو کلپ آپ بھی ملاحظہ کیجئیے: اینکرپرسن کے یہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو صارفین نے انہیں ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ موصوف قتل کے حوالے سے بھی اسلام کا حوالہ دے دیتے۔ کچھ خواتین نے عمران ریاض خان کے ان خیالات پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی اپنی ذاتی زندگی میں جو بھی کرے اُس پر کسی کو بولنے کا کوئی حق نہیں ہے لیکن قتل کرنا کسی طور بھی جائز نہیں ہے نہ ہی ڈھونڈنے سے اس قسم کے بہیمانہ قتل کا کوئی جواز مل سکتا ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ مذکورہ اینکر اپنے وی لاگ میں مقتولہ کی کردار کشی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے نظر آئے جو قابل مذمت ہے۔ ایک اور خاتون نے کہا کہ مذہبی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے ایک صحافی کا مرد کے تشدد کا شکار خواتین کے خلاف خطرناک بیانیہ۔ یہ متاثرین پر الزام تراشی سے کہیں بڑھ کر ہے۔ عمران ریاض سے پوچھنا چاہئیے کہ وہ اپنے شوہروں، والد اور بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والی خواتین کے متعلق کیا کہیں گے؟ عمران ریاض خان کی اس ویڈیو پر اداکارہ و ماڈل نادیہ حسین نے بھی بھی حیرانی کا اظہار کیا اور کہا کہ میرے لیے یہ کافی حیران کُن ہے۔ یہ ایک گھٹیا سوچ ہے، رشتہ یا تعلق جو بھی ہو ، قتل ، قتل ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر قتل اور زیادتی کو جائز قرار نہ دیں، انہوں نے عمران ریاض خان سے سب کے سامنے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا۔
یہی نہیں اسی حوالے سے ان کے ساتھی صحافی اور اینکر منصور علی خان نے بھی یو این ویمن کا ایک کلپ شئیر کیا جس پر درج ہے ”آئیے متاثرین پر الزام تراشی والے بیانیے کو بدلتے ہیں اور زبان کی طاقت کو بچ جانے والوں کی خدمت کے لیے استعمال کریں نہ کہ مجرموں کے فائدے کے لیے۔ ” تاہم کچھ لوگوں نے عمران ریاض خان سے اتفاق رائے کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ انہوں نے غیر شادی شدہ مردوں اور عورتوں کے تعلقات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ آپ ان سے اتفاق یا اختلاف کرسکتے ہیں لیکن ان سے اظہارِ رائے کا حق نہیں چھین سکتے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی وکیل نگہت داد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ ایک صحافی نے یہ کال ڈیٹا کہاں سے حاصل کیا؟’ انہوں نے کہا کہ چاہے وہ ملزم ہے یا متاثرہ شخص، دونوں صورتوں میں ڈیٹا کی رازداری برقرار رہنی چاہئیے اور اسے صرف اور صرف تفتیش کی غرض سے ہی استعمال کیا جانا چاہئیے ۔
اس (کال ڈیٹا) تک رسائی اور استعمال صرف وہی افراد کر سکتے ہیں جو اس کیس کا حصہ ہوں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس اینکر نے یہ ڈیٹا قانونی طریقے سے حاصل کیا؟ ان کا کہنا تھا کہ عمران ریاض کے خلاف عدالت تو شاید کوئی نوٹس نہ لے سکے لیکن پیمرا میں شکایت کی جاسکتی ہے اور نور کے والدین اپنی بیٹی کی کردار کشی کے لیے پیکا کا استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف ایف آئی اے میں شکایت بھی کر سکتے ہیں۔