Sunday May 19, 2024

افغانستان میں تعینات امریکی سفیرکاعمران خان سےمتعلق شرمناک بیان۔۔۔امریکی سفیربھی افغانستان کی ز بان بولنےلگے

کابل (ویب ڈیسک)افغانستان میں تعینات امریکی سفیر جان روڈنی باس کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان پر افغان امن عمل میں ‘بال ٹیمپرنگ’ کا الزام عائد کرنے پر پاکستانیوں نے انہیں کرارا جواب دیا۔امریکی سفیر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ‘ٹوئٹر’ پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ ’کرکٹ کے بعض پہلوؤں کا سفارتکاری میں اچھی طرح اطلاق ہوتا ہے اور کچھ نہیں، عمران خان یہ اہم ہے کہ آپ افغانستان کے امن عمل اور داخلی معاملات میں بال ٹیمپرنگ کی اپنی کوشش کو روک کر رکھیں‘۔امریکی سفیر کے بیان پر پاکستان کی جانب سے فوری ردعمل کا اظہار کیا گیا، اکثر افراد نے حیرانی کا اظہار کیا کہ ایک سفارتی نمائندہ پڑوسی ملک کے

وزیراعظم پر الزام کیسے عائد کر سکتا ہے۔کالم نگار مشرف زیدی نے اس ٹوئٹ کو امریکا کے لیے باعث شرمندگی قرار دیا، انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ کو اس تلخ تنقید کا جواب دینا چاہیے۔مشرف زیدی نے مزید کہا کہ درمیانی درجے کے بیوروکریٹ کی جانب سے پاکستان کے وزیراعظم کے لیے ایسی بات کرنا خطرے کی گھنٹی ہے۔دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار اعجاز حیدر نے امریکی سفیر کو سفارت کاری سے متعلق کورس کرنے کا مشورہ دیا۔سینئر صحافی خرم حسین نے بھی امریکی سفیر پر تنقید کرتے ہوئے انہیں یاد دہانی کروائی کہ ایک وزیراعظم کی توہین کر کے انہوں نے سفارتی قواعد کی خلاف ورزی کی ہے۔انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ سفارتکاری کی الف، ب سے واقف بھی ہیں؟ آپ کو اس ملک کے وزیراعظم کے متعلق ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی جو اس ملک کا پڑوسی ہے جہاں آپ بطور سفیر تعینات ہیں۔حکومتی نمائندوں نے بھی اس حوالے سے اپنی آواز اٹھائی، وزیر خزانہ اسد عمر نے امریکی سفیر پر تنقید کی اور ان کی سفارتی صلاحیتوں پر سوال اٹھایا۔اسد عمر نے کہا کہ ‘آپ کی ٹوئٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نہ تو کرکٹ سمجھتے ہیں نہ ہی سفارتکاری۔’وزیر خزانہ نے کہا کہ ‘افغان امن عمل مشکل میں ہے، مجھے امید ہے کہ امریکا ان نازک مسائل سے نمٹنے کے لیے بہتر سفارتی صلاحیت ڈھونڈ لے گا۔’وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے کہا کہ ‘جان باس، آپ اپنے ایسے رویے سے امریکا کے اچھے سفارتکاروں کی فہرست میں کبھی جگہ نہیں بناسکیں گے۔وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے امریکی سفیر کو بونے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ‘جتنی کم معلومات آپ کی بال ٹیمپرنگ کے بارے میں ہیں، اتنی ہی افغانستان اور خطے سے متعلق ہے۔’شیریں مزاری نے امریکی سفیر کے ٹوئٹ کو خلیل زاد کی جانب سے اپنایا جانے والا ڈونلڈ ٹرمپ کا نامناسب رویہ قرار دیا۔تاہم شیریں مزاری کے ٹوئٹ پر بعض افراد کی جانب سے غیرسفارتی زبان کے استعمال پر تنقید کی گئی۔جس پر کالم نگار مشرف زیدی نے شیریں مزا ری کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر شیریں مزاری کا ٹوئٹ آپ کے لیے وزیراعظم پر جان باس کے الزام سے زیادہ بڑا مسئلہ ہے تو آپ کو خود کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔صحافی ضرار کھوڑو نے بھی شیریں مزاری کی حمایت کی اور ٹوئٹ کیا کہ ‘یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ شیریں مزاری کا ٹوئٹ سفارتی قواعد کی خلاف ورزی ہے, لیکن امریکی سفیر کا ٹوئٹ (جو حقیقت میں سفارتکار

ہیں) وہ بالکل ٹھیک ہے۔’خیال رہے کہ دو روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں نگراں حکومت کے قیام سے امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات میں مزید بہتری آئے گی، کیونکہ طالبان نے موجودہ حکومت سے بات کرنے سے انکار کردیا ہے۔وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو داخلی امور میں مداخلت قرار دیتے ہوئے افغانستان نے پاکستان سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔افغان وزارت خارجہ کے ترجمان صبغت اللہ احمدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ،افغانستان نے پاکستان کے ڈپٹی سفیر کو وزیر اعظم کے ’غیر ذمہ دارانہ‘ بیان پر مشاورت کے لیے وزارت امور خارجہ میں طلب کرلیا ہے۔’ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کے بیان سے پاکستان کی مداخلتی پالیسی ثابت ہوتی ہے اور یہ افغانستان کی خود مختاری پر حملہ ہے‘۔بعد ازاں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے ایک ٹوئٹ میں پاکستان کی تعمیری کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان نے تعمیری کردار ادا کیا، لیکن وزیراعظم پاکستان کے حالیہ بیان نے متاثر نہیں کیا۔دفتر خارجہ کی جانب سے وزیراعظم کے بیان پر تنقید کے بعد وضاحت کی گئی تھی کہ افغانستان میں نگراں حکومت کے قیام کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو میڈیا میں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، جس کی وجہ سے مختلف حلقوں کی طرف سے غلط ردعمل سامنے آیا۔دفتر خارجہ کے ترجمان کے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم نے انتخابات کے پاکستانی ماڈل کی جانب اشارہ کیا تھا جس میں الیکشن کا انعقاد عبوری حکومت کی زیر نگرانی ہوتا ہے اور اس بیان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کا افغانستان میں اس کے علاوہ اور کوئی مفاد نہیں کہ امن کو ایک ایسے سیاسی عمل کے ذریعے فروغ دیا جائے جس کے مالک اور سربراہ افغان ہوں۔دفتر خارجہ نے مزید کہا تھا کہ وزیر اعظم نے افغانستان میں امن کے لیے جاری سیاسی مفاہمتی عمل میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ذاتی دلچسپی ظاہر کی تھی اور امن عمل کے اس اہم مرحلے پر اس بیان کو بنیاد بنا کر پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کو نظرانداز کرنے اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔

FOLLOW US