لاہور(ویب ڈیسک)ایک رپورٹ کے مطابق اس قرضے کا اعلان متوقع وزیر اعظم کے انتخاب کے چند روز بعد کیا گیا۔ عمران خان مخلوط حکومت تشکیل دینے کی کوششوں میں ہیں جبکہ چین جیوپولیٹیکل اتحاد کو مزید تقویت پہنچانے کیلئے اقدامات کر رہا ہے ، جن کی بنیاد پر بھارت اور امریکہ
سے متعلق پاکستان اپنی پالیسیاں تشکیل دے گا۔ چینی اعلان جس کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر میں اچانک اضافہ ہوا، ایسے وقت میں چین پر پاکستان کے بڑھتے مالی، سفارتی اور فوجی انحصار کی علامت ہے ، جب صدر ٹرمپ اسلام آباد کی فوجی امداد میں کٹوتی کرچکے ہیں ۔ ان حالات میں عمران خان کے پاس شاید کوئی دوسری چوائس نہ ہو۔ پاکستانی فوج بھی سول قیادت پر چین کیساتھ قریبی روابط بڑھانے کیلئے زور دے رہی ہے تاکہ سی پیک کے انفراسٹرکچر منصوبوں کیلئے 60ارب سے زائد کے قرضوں کا حصول یقینی بنا سکے ۔ ووڈ رو ولسن سنٹر واشنگٹن کے جنوبی ایشیا سے متعلق سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگل مین کے مطابق پاکستان میں بیجنگ کیساتھ مضبوط پارٹنرشپ سے متعلق گہرا سیاسی اتفاق رائے پایا جاتا ہے ۔ پاک امریکہ تعلقات کے غیر یقینی مستقبل کی وجہ سے یہ اتفاق رائے بہت اہم ہے ۔ انتخابی کامیابی کے بعد ٹی وی پر جاری بیان میں عمران خان نے کہا کہ چین ہمارا ہمسایہ ہے ، جس کیساتھ روابط مزید مضبوط بنائے جائینگے ۔ چین کی مدد سے جاری سی پیک منصوبے کی وجہ سے ہمیں پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کا موقع ملے گا۔ ادھر 30جولائی
کو میڈیا بریفنگ کے دوران چینی وزارت خارجہ کے ترجمان جینگ شونگ نے کہا کہ چین پاکستان کی نئی حکومت کا خیرمقدم کرتا ہے ۔ بیجنگ کے انسٹیٹیوٹ آٖف انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈائریکٹر وانگ یووی کے مطابق عمران خان امریکہ اور چین کیساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرینگے ، مگر چین اور پاکستان ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں، عمران خان یہ حقیقت بدل نہیں سکتے ۔ بروکنگ انڈیا کے خارجہ پالیسی فیلو دھرووا جے شنکر کے مطابق قبل ازیں چین نے سابق وزیراعظم نواز شریف پر فوکس کیا تھا، اب بیجنگ نے پاکستان میں اپنے رابطوں اور سرمایہ کاری میں تنوع پیدا کیا ہے ۔ملک پر طویل عرصہ حکمرانی کرنیوالی فوج سی پیک منصوبوں سے متعلق ملکی پالیسی کی وضاحت کر تی ہے ۔ عمران خان کے پاس زیادہ آپشن نہیں ، ممکن ہے کہ ہم پاکستان کو بتدریج چین کے قریب اور امریکہ سے دور ہوتا دیکھیں۔اس کی وجوہات کا جن عوامل کیساتھ تعلق ہے ، وہ عمران خان کے انتخاب سے بہت پہلے ہیں۔کوگل مین کے مطابق چین سے متعلق سیاسی اتفاق رائے آج بہت اہمیت کا حامل ہے ، پاکستان کو طاقتور دوستوں کی ضرورت ہے اور چین ان چند میں سے ایک ہے جن پر اسلام آباد انحصار کر سکتا ہے ۔عمران خان یہ بات جانتے ہیں،
وہ ہر ایسا اقدام کرینگے جن سے مضبوط پاک چین تعلقات یقینی بنائے جا سکیں۔ مبصرین کے مطابق عمران خان کیلئے سب سے بڑا چیلنج زبوں حالی کی شکار معیشت ہے ، جس کی وجہ سے بیل آؤٹ کیلئے انہیں آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑ سکتا ہے ۔ گزشتہ ہفتے کراچی کے انگریزی اخبار نے وزارت خزانہ کے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے خبر دی کہ بیجنگ نے معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے 2ارب ڈالر کی منظوری دیدی ہے ۔ اخبار کے مطابق سعودی عرب کے اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک نے تیل کیلئے 4.5ارب ڈالر کی فنانسنگ کی سہولت منظور کی ہے ۔ وزارت خزانہ کے ترجمان نے رابطے کے باوجود اس رپورٹ پر تبصرہ نہیں کیا۔ گزشتہ 13ماہ کے دوران چینی قرضہ آئی ایم ایف کے 6.2ارب ڈالر کے گزشتہ قرضے سے قریب قریب ہے ۔ چین کے بھاری قرضوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سی این بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات پر نظر رکھیں گے کہ عمران خان کی نئی حکومت آئی ایم ایف کے فنڈز چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال تو نہیں کرتی۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری نے ٹیلی فونک رابطے پر کہا،‘‘امریکہ ہمارے ساتھ روابط کو چین سے نہ جوڑے ۔آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا حتمی فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا، تاہم امید کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی مالی سپورٹ حاصل کرنے میں امریکہ رکاوٹیں پیدا نہیں کرے گا۔ اسلام آباد کے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر نجم رفیق کے مطابق نئے چینی قرضے سے زرمبادلہ کے گرتے ذخائر پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ عمران خان چین کے ساتھ تعلقات مزید بہتر بنانے کے خواہاں ہیں، چین کوئی دوردراز کی عالمی طاقت نہیں، بلکہ ہمسایہ ملک ہے ۔ دونوں ملکوں کے مابین پہلے سے جاری معاملات کو عمران خان مزید بہتر بنانے کی کوشش کرینگے ۔