ممبئی : فرانس کے قومی مالیاتی استغاثہ کے دفتر (پی این ایف) نے 2016 میں بھارت سے رافیل طیاروں کی فروخت کے لیے کیے گئے اربوں ڈالر کے متنازع معاہدے میں بدعنوانی اور کرپشن کے شبہات پر مقامی جج کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپ دی۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ہندوستانی حکومت اور فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی ڈاسالٹ کے درمیان 36 طیاروں کے لیے 7.8 ارب یورو (9.3 ارب ڈالر) کا معاہدہ طے پایا تھا جس پر عرصے سے بدعنوانی کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ پی این ایف نے اس فروخت کی تحقیقات سے باضابطہ طور پر انکار کردیا تھا جس پر فرانسیسی تحقیقاتی ویب سائٹ میڈیا پارٹ نے پی این ایف کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اینٹی کرپشن ایجنسی پر ستمبر 2016 کے معاہدے پر منڈلاتے شکوک و شبہات کی تحقیقات کے بجائے معاملے کی کارروائی سردخانے کی نذر کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
طالبان نے امریکا کی 715 فوجی گاڑیوں سمیت بھاری اسلحے پر قبضہ کرلیا
اپریل میں میڈیا پارٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ لاکھوں یورو خفیہ کمیشن ایک ایسے شخص کو دیا گیا تھا جس نے اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ڈاسالٹ کی مدد کی تھی جبکہ اس معاملے میں کچھ رقم بطور رشوت بھارتی حکام کو بھی دیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ ڈاسالٹ نے جواب دیا تھا کہ گروپ کے آڈٹ میں کسی قسم کے بدعنوانی یا کرپشن کی نشاندہی نہیں ہوئی۔ان اطلاعات کے بعد مالیاتی جرائم کے حوالے سے مہارت رکھنے والی فرانس کی شیرپا این جی او نے معاہدے کے حوالے سے بدعنوانی سمیت سنگین الزامات عائد کیے تھے جس کے بعد حکام اس معاہدے کی تحقیقات تفتیشی مجسٹریٹ کو سونپنے پر مجبور ہو گئے تھے۔شیرپا نے 2018 میں ہی اس معاہدے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا لیکن پی این ایف نے سابقہ رویہ برقرار رکھتے ہوئے کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔
اپنی پہلی شکایت میں غیر سرکاری تنظیم نے اس حقیقت کا انکشاف کیا تھا کہ ڈاسالٹ نے دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے انتہائی قریب تصور کیے جانے والے تاجر انیل امبانی کی مشہور زمانہ ریلائنس گروپ کو اپنا ہندوستانی شراکت دار منتخب کیا تھا۔ڈاسالٹ نے ابتدائی طور پر 2012 میں ہندوستان کو 126 جیٹ طیاروں کی فراہمی کا معاہدہ حاصل کیا تھا اور وہ اس سلسلے میں ہندوستانی ایرو اسپیس کمپنی انڈین ایرووناٹکس لمیٹڈ کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔