واشنگٹن(ویب ڈیسک) امریکہ میں صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ آج تین نومبر کو پاکستانی وقت کے مطابق شام 5بجے جبکہ امریکا کے ایسٹرن زون کے حساب سے صبح7بجے شروع ہوگی اور بغیر کسی وقفے کے شام 8بجے تک جاری رہے گی امریکا میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد تقریبا 26کروڑ ہے جن میں سے 9کروڑ ووٹرپہلے ہی قبل ازووٹنگ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرچکے ہیں . امریکا کے اندر 6 مختلف ٹائم زون ہونے کی وجہ سے مختلف ریاستوں میں اور علاقوں میں پولنگ مختلف اوقات میں شروع اور ختم ہوگی ریاست کیلی فورنیا‘اوریگن ‘واشنگٹن پیسفک اسینڈرٹائم زون میں آتی ہیں جو کہ نیویارک‘واشنگٹن ڈی سی‘ورجینیا‘ اوہائیو‘فلوریڈاسے مین تک کے ٹائم زون سے تین گھنٹے پیچھے ہیں.
اسی طرح اسی طرح سنٹرل ٹائم زون میں ٹیکساس سمیت تقریبا تمام جنوبی ریاستیں آتی ہیں جو کہ نیویارک یا واشنگٹن ڈی سی سے ڈیڑھ گھنٹہ پیچھے ہیں ‘ماﺅنٹن ٹائم زون کا فرق 2گھنٹے کا ہے جبکہ ریاست الاسکا اور ہوائی کے اپنے ٹائم زون ہیں ان دونوں ریاستوں کا دیگر امریکی ریاستوں سے کوئی زمینی راستہ نہیں ہے ان میں الاسکا نیویارک اور وفاقی دارالحکومت ڈسٹرکٹ آف کولمبیا(واشنگٹن ڈی سی)سے 4گھنٹے پیچھے ہے جبکہ ہوائی 2گھنٹے لہذا پاکستانی وقت کے مطابق امریکا کی مختلف ریاستوں اور علاقوں میں پولنگ مختلف اوقات میں شروع اور ختم ہوگی . مختلف ٹائم زون ہونے کی وجہ سے پاکستانی وقت کے مطابق پولنگ کئی علاقوں میں 4جنوری کی صبح تک جاری رہ سکتی ہے جبکہ نتائج آنے کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے کیونکہ امریکی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کی طرح پولنگ بوتھس کے نتائج دینے کا رواج نہیں البتہ میڈیا ہاﺅسزکے تحت عوامی رائے عامہ کے جائزوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور انہی کی بنیاد پر ماہرین اپنے تبصرے اور ممکنہ نتائج پر بات کرتے ہیں. امریکا روایات میں جہاں بہت ساری انوکھی روایات موجود ہیں وہاں نائب صدر رہنے والے کسی صدارتی امیدوار کے صدر بننے کے امکانات ماضی میں انتہائی کم رہے ہیں عوامی جائزے بھی اکثروبیشتر نتائج کے برعکس ہوتے ہیں 2016کے صدارتی انتخابات کے عوامی جائزوں میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک غیرسنجیدہ اور یقینی طور پر ہارے ہوئے امیدوار نظر آتے ہیں جبکہ ہیلری کلنٹن کی مقبولیت ان کے مقابلے کہیں زیادہ تھی مگر نتائج نے سارے عوامی جائزوں اور واشنگٹن کے سیاسی پنڈتوں کی پشین گوئیوں کو الٹ کر رکھ دیا تھا.
امریکی سیاسی تاریخ میں اگرچہ اب تک 14 نائب صدور بعد میں صدر بننے میں کامیاب ہوچکے ہیں، لیکن ان میں سے 9 کو یہ موقع کسی صدر کے قتل، انتقال یا استعفے کی وجہ سے ملا صرف پانچ نائب صدر ایسے ہیں جنہوں نے نائب صدارت کی مدت مکمل کرنے کے بعد صدارت کا انتخاب جیتا ٹھیک پانچ ہی نائب صدر ایسے ہیں جو صدارتی انتخاب ہارے اور کبھی صدر نہیں بن سکے. امریکہ کے اولین دور میں صدارت اور نائب صدارت کے الگ امیدوار نہیں ہوتے تھے پہلے نمبر پر آنے والا امیدوار صدر اور دوسرے نمبر پر آنے والا امیدوار نائب صدر بن جاتا تھا 1788 میں ہوئے پہلے انتخاب میں 12 امیدواروں نے حصہ لیا تھا ان میں 69 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے والے جارج واشنگٹن صدر اور 34 الیکٹورل ووٹ لینے والے جان ایڈمز نائب صدر بن گئے تھے 1796 میں ایسے ہی انتخاب کے بعد جان ایڈمز خود بھی صدر بنے. دلچسپ بات ہے کہ تین امریکی راہنماﺅں نے پہلے صدارتی انتخاب لڑا اور بعد میں نائب صدر منتخب ہوئے جارج کلنٹن اولین تین انتخابات میں امیدوار تھے لیکن ناکام رہے بعد میں 1804 اور 1808 میں نائب صدر بنے اسی طرح ایورن بر 1792 اور 1796 میں صدارتی انتخاب ہارے اور 1800 میں نائب صدر بنے تھامس ہینڈرکس نے 1872 میں صدارتی الیکشن میں شکست کھائی اور 1884 میں نائب صدارت جیتی. تین نائب صدور صدر ایسے ہیں جنہیں کسی صدر کے قتل یا انتقال پر اعلیٰ ترین عہدہ ملا لیکن اس کے بعد انھوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا 1841 میں ولیم ہنری ہیریسن کے انتقال پر جان ٹائیلر، 1865 میں ابراہام لنکن کے قتل پر اینڈریو جانسن اور 1881 میں جیمز گارفیلڈ کے قتل پر چیسٹر آرتھر صدر بنے تھے. 1850 میں زیچری ٹیلر کے انتقال پر ملرڈ فلمور صدر بن گئے تھے اور انھوں نے بھی 1852 کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن 4 سال بعد وہ میدان میں کودے تو انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑاچار نائب صدر ایسے تھے جنہیں کسی صدر کے قتل یا انتقال پر ترقی ملی اور وہ اگلا انتخاب خود بھی جیتے 1801 میں ولیم میک کنلے کے قتل پر تھیوڈور روزویلٹ، 1923 میں ویرن ہارڈنگ کی موت پر کیلون کولج، 1945 میں فرینکلن روزویلٹ کے انتقال پر ہیری ایس ٹرومین اور 1963 میں جان ایف کینیڈی کے قتل پر لنڈن بی جانسن صدر بنے اور پھر اگلے الیکشن میں خود بھی کامیابی حاصل کی.
جیرالڈ فورڈ امریکی تاریخ کے واحد سیاست دان ہیں جو صدر یا نائب صدر کا الیکشن لڑے بغیر اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچے 1973 میں ایوان نمائندگان میں ری پبلکن پارٹی کے قائد تھے نائب صدر اسپیرو ایگنیو کے مستعفی ہونے پر صدر نکسن نے انھیں نائب صدر نامزد کیا اگلے سال نکسن خود مستعفی ہوئے تو جیرالڈ فورڈ صدر بن گئے 1976 میں انھوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا لیکن شکست کھائی. پانچ نائب صدر ایسے ہیں جنہوں نے نائب صدارت کی مدت مکمل کرنے کے بعد صدارت کا انتخاب جیتا جن میں جان ایڈمز 1788 اور 1792 میں نائب صدر رہے، 1796 میں الیکشن جیت کر صدر بنے اور 1800 میں صدارتی انتخاب ہارا‘تھامس جیفرسن 1792 کا صدارتی انتخاب ہارے، 1796 میں دوسرے نمبر پر رہنے کی وجہ سے نائب صدر بنے پھر 1800 اور 1804 میں صدر بنے مارٹن وین بورن 1832 میں نائب صدر اور 1836 میں صدر منتخب ہوئے 1840 کے صدارتی انتخاب میں انھیں شکست ہوئی 1844 میں انہوں نے حصہ نہیں لیا 1848 میں پھر قسمت آزمائی اور پھر ہارے. اس کے بعد رچرڈ نکسن کا نمبر آتا ہے جن کا نام جدید دور میں سب سے زیادہ بار صدارتی الیکشن کے بیلٹ پیپر پر آیا اور وہ سب سے مختلف حالات کا شکار بھی ہوئے 1952 اور 1956 میں وہ ڈوائٹ آئزن ہاور کے نائب صدر تھے 1960 میں انہیںری پبلکن پارٹی نے صدارتی انتخاب کے لیے امیدوار بنایا لیکن وہ جان ایف کینیڈی سے ہار گئے انہوں نے اگلے انتخاب میں خاموشی اختیار کی اور 1968 میں دوبارہ میدان میں آئے نہ صرف اس بار الیکشن جیتا بلکہ 4 سال بعد دوبارہ بھی منتخب ہوئے بعدمیں انہیں واٹرگیٹ اسکینڈل کی وجہ سے انھیں استعفیٰ دینا پڑا وہ مستعفی ہونے والے امریکہ کے واحد صدر ہیں. جارج بش سینئر آخری نائب صدر تھے جو صدارت کا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئے1980 اور 1984 میں وہ رونالڈ ریگن کے نائب تھے اور 1988 میں خود صدر بنے لیکن 1992 میں دوبارہ منتخب ہونے کی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے اور بل کلنٹن کے ہاتھوں شکست کھا گئے. پانچ نائب صدر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے صدر کا انتخاب لڑا لیکن کامیابی نے ان کے قدم نہیں چومے 1856 میں جیمز بکانن کے نائب جان بریکنرج 1860 میں ابراہام لنکن سے ہار گئے تھے 1940 میں فرینکلن روزویلٹ کے نائب صدر رہنے والے ہیری ویلس 1948 میں بے وجہ میدان میں اترے اور بری طرح ناکام ہوئے.
1964 میں لنڈن بی جانسن کے نائب ہیوبرٹ ہمفرے نے 1968 میں صدارتی الیکشن لڑا اور رچرڈ نکسن کے مقابلے پر نامراد رہے 1976 میں جمی کارٹر کے نائب والٹر مونڈیل نے 1984 میں رونالڈ ریگن کو ری الیکٹ ہونے سے روکنے کی کوشش کی اور تاریخ کی بدترین شکست کھائی. آخری واقعہ زیادہ پرانا نہیں جب بل کلنٹن کے 1992 اور 1996 کے نائب ایل گور نے 2000 میں جارج بش جونئیر کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی لیکن ان سے زیادہ پاپولر ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صدر نہ بن سکے یہ معاملہ عدالت تک بھی پہنچا تھااس بار جو بائیڈن صدر ٹرمپ کو دوبارہ منتخب ہونے سے روکنے کے لیے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں جو بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں آسان کام نہیں ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ جب کوئی صدر یا نائب صدر وقفے کے بعد الیکشن لڑتا ہے تو کامیاب نہیں ہوتا. اگر بائیڈن نے انہونی کردی تو یہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے شخص ہوں گے ورنہ کم از کم مونڈیل سے بری کارکردگی نہیں ہوگی جو 1984 میں 50 میں سے 49 ریاستیں ہار گئے تھے. اس وقت دونوں جماعتوں کے امیدوار فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی ریاستوں میں ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے میں کوشاں ہیںگزشتہ روز صدر ٹرمپ نے ریاست مشی گن جب کہ جو بائیڈن نے ریاست پینسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں اپنے حامیوں سے خطاب کیا‘مشی گن میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے یورپ میں کورونا وائرس کے باعث دوبارہ لاک ڈاﺅن لگانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی معیشت کو کسی صورت بند نہیں کریں گے. جو بائیڈن نے فلاڈیلفیا میں ریلی سے خطاب میں صدر ٹرمپ کی کورونا سے نمٹنے کی حکمت عملی کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لیا جو بائیڈن نے امریکی جریدے کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہے کہ وہ الیکٹورل کالج کے نتائج سے قبل ہی الیکشن کی رات اپنی کامیابی کا اعلان کر دیں گے. تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات سےقبل امریکہ کے طول و عرض میں کیے جانے والے عوامی جائزوں کی بنا پر امیدواروں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کے جیتنے کے امکانات کو پرکھا جا رہا ہے امریکی انتخابات کا نتیجہ پول کی بنا پر مرتب نہیں ہوتا لیکن ان پر بات چیت انتخابی گفتگو کا اہم موضوع ہے امریکہ میں صدر کا انتخاب عوامی ووٹ کے ذریعے چنے گئے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد پر ہوتا ہے.
امریکی عوام جب ووٹ ڈالتے ہیں تو وہ ایسے افراد کے لیے ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں جو مل کر الیکٹورل کالج بناتے ہیں جو صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتے ہیں ہر ریاست میں الیکٹورل کالج کے اراکین کی تعداد اس کی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے جیتنے والے امیدوار کو 538 میں سے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں حالیہ مختلف پول یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ڈیمو کریٹک امیدوار بائیڈن کو قومی سطح پر صدر ٹرمپ پر سات پوائنٹس کی برتری ہے.