اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سینئر صحافی و کالم نویس جاوید چودھری نے اپنے کالم میں لکھا کہ ہم پاکستان میں عدل پر مبنی ایک صاف ستھرا نظام بنانا چاہتے ہیں‘ ایک ایسا نظام جس کے سامنے صدر اور وزیراعظم بھی جواب دہ ہوں اور جنرل اور ججز بھی‘ جس کی نظر میں ساری گائیں صرف گائیں ہوں یہ مقدس یا غیر مقدس نہ ہوں‘ چیف جسٹس میاں ثاقب نثارعدل پر مبنی اس معاشرے کے لیے ان تھک محنت کر رہے ہیں۔
یہ اس آزاد عدلیہ کی شبانہ روز محنتوں کا نتیجہ ہے آج پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں پاناما لیکس کے بعد دو تہائی اکثریت کا حامل وزیراعظم عدالت کے حکم پر فارغ ہو گیا‘ جس میں پانچ ججوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس شدہ بل کا آپریشن کیا اور میاں نواز شریف کو پارٹی کی صدارت سے فارغ کر دیا اور جس میں ملک کی سب سے بڑی جماعت کے امیدواروں کو سینیٹ کے الیکشن تک سے بھی آؤٹ کر دیا گیا‘ ہم کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے پاکستان میں ایک ایسا وقت آئے گا جب ججز کے حکم پر وزراء اعظم فارغ ہو جائیں گے اور حکومت منہ دیکھتی رہ جائے گی۔یہ واقعی ایک نیا پاکستان ہے اور قوم اس پاکستان پر جتنا بھی فخر کرے وہ کم ہو گا لیکن اس کے باوجود سوال یہ ہے کیا اس نئے پاکستان میں ججز بدستور مقدس گائے رہیں گے؟ کیا یہ انصاف ہے آپ جرمنی کے ایک اخبار میں شایع ہونے والی خبر کی بنیاد پر وزیراعظم کے خلاف جے آئی ٹی بنا دیں‘ آپ اسے اقامہ چھپانے کے جرم میں گھر بھجوا دیں اور آپ اسے ہفتے میں چار چار دن خاندان سمیت احتساب عدالت میں طلب کر لیں لیکن جب ایک ایڈیشنل سیشن جج ہائی کورٹ کے دو معزز ججوں اور رجسٹرار کے سامنے رشوت لینے کا اعتراف کر لے‘ وہ مان لے مجھ سے فلاں شخص نے یہ کام کرایا تھا‘ مجھے پچاس لاکھ روپے پاکستان میں ادا کیے گئے‘ ڈیڑھ کروڑ روپے لندن میں ملنے تھے اور باقی رقم یہ خود کھا گئے تھے اور وہ بڑی بے چارگی سے کہے ’’سر یہ لوگ بڑے بے ایمان ہیں۔مجھے انھوں نے صرف پچاس لاکھ روپے دیے‘‘
تو انصاف کا بابا رحمتا اسے صرف معطل کر کے خاموش بیٹھ جائے‘ کیا یہ انصاف ہے؟ آپ المیہ دیکھئے‘ جج نے شعیب شیخ کو 31 اکتوبر 2016ء کو رہا کیا‘ یہ ایشو 7 ماہ بعد مئی 2017ء میں سامنے آیا تھا‘ جج نے جون میں رشوت لینے کا اعتراف کیا اور کمیٹی نے جج کو معطل کر کے ایشو دبا دیا‘ یہ ایشو 8 ماہ خاموش پڑا رہا‘ اگر جج پرویز قادر فیصلہ چیلنج نہ کرتا تو یہ خوفناک اسکینڈل آج بھی فائلوں میں دفن ہوتا‘ قوم کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔اس ایشو کو چھپانے کا ذمے دار کون ہے‘ اس کا تعین کیوں نہیں کیا جا رہا؟
شعیب شیخ کی رہائی کے ذمے دار بھی موجود ہیں‘ رشوت کی رقم بھی‘ جج کا اعتراف بھی‘ ٹیلی فون کالز کا ڈیٹا بھی اور ہائی کورٹ کے دو ججوں کا فیصلہ بھی لیکن راشی جج سے پچاس لاکھ روپے واپس لیے گئے اور نہ ہی جرم کی تحقیقات ہوئیں‘کیوں؟سوال یہ بھی ہے اس ایشو پر جے آئی ٹی کیوں نہیں بنی‘ اس کے لیے فرانزک ایکسپرٹس کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا‘ یہ کیس نیب اور ایف آئی اے کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا اور اس کیس میں ملوث لوگوں کے خلاف انکوائری کیوں نہیں ہوئی؟ ہم ماضی کودفن کر دیتے ہیں‘ ہم سیف الرحمن اور میاں شہباز شریف کی جسٹس ملک قیوم کو ٹیلی فون کالز بھی بھول جاتے ہیں۔
ہم متنازعہ سیاسی فیصلوں پر ججوں پر چمک اور بریف کیسوں کے الزامات بھی بھلا دیتے ہیں‘یہ سب ماضی تھا‘ یہ پرانا پاکستان تھا لیکن پرویز قادر میمن جیسے واقعات کی نئے پاکستان میں کیا ’’جسٹی فکیشن‘‘ ہے‘ ہم اگر ماضی میں جسٹس ملک قیوم جیسے ججوں کی برطرفی کو کافی سمجھتے تھے تو ہم آج بھی یہی کر رہے ہیں‘ ہم ماضی میں جسٹس ملک قیوم اور آج پرویز قادر کی معطلی اور برطرفی کو حتمی سزا سمجھ رہے ہیں‘ کیا یہ انصاف ہے؟ہم الزام پر وزیراعظم کوگھر بھجوا دیتے ہیں لیکن ہم جج کو رشوت کی رقم سمیت عزت کے ساتھ گھر بھجوا دیتے ہیں‘ کیوں؟ اور دوسرا سوال اگر میاں نواز شریف کی پارٹی صدارت کے ساتھ سینیٹ کے ٹکٹوں سمیت ان کے تمام فیصلے کالعدم ہو سکتے ہیں تو ایک راشی جج کی برطرفی کے بعد اس کے تمام فیصلے کیوں بحال رہتے ہیں‘ وہ تمام فیصلے بھی کالعدم کیوں نہیں ہوتے؟ اس کیوں کا جواب کون دے گا!