بی بی سی اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے فہد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے ڈرامے سب دیکھتے ہیں، کیونکہ جو دیکھا نہیں جاتا، اس پر بات نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’نند اور جلن ڈرامہ سب نے دیکھا اور پسند کیا، فی الحال انھیں ٹی وی ڈراموں میں اداکاری سے زیادہ پروڈیوس کرنے میں مزا آرہا ہے۔‘ فہد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ دوسرے اداکاروں کی طرح ان کے اندر اتنی صلاحیت نہیں کہ فلموں، اشتہارات اور پروڈکشنز کے بعد ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے لیے وقت نکال سکیں۔
وہ کہتے ہیں ’اگر میں کچھ کر نہیں رہا ہوتا اور ٹی وی پر اداکاری نہیں کرتا تو غلط ہوتا، اللہ کا شکر ہے میں کافی کچھ کر رہا ہوں، ٹی وی ڈرامے پروڈیوس کر رہا ہوں، گیم شو جیتو پاکستان کی میزبانی کر رہا ہوں، اشتہارات میں کام کر رہا ہوں اور جب تک کورونا کی وبا نہیں آئی تھی فلمیں بھی کررہا تھا، شاید میں اتنا سب کچھ ایک ساتھ نہیں کر سکتا اس لیے ڈرامے نہیں کر رہا۔‘
پاکستانی فلم ’نامعلوم افراد‘ سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کرنے والے اداکار نے مزید کہا کہ ڈرامے میں اداکاری وقت مانگتی ہے، جو ان کے پاس نہیں بچتا۔
’اگر ڈرامے کروں گا تو پھر یہ سب کچھ نہیں کر سکوں گا۔ ابھی تو میں ایک پروڈیوسر ہو کر دوسروں کے لیے سوچتا ہوں، اس کا ایک الگ مزا ہے، لیکن اگر ایک ڈرامے میں اداکاری کرنے لگا تو باقی سب کام متاثر ہوں گے۔ ایسا نہیں کہ ٹی وی کرنے کا دل نہیں ہے، شاید وقت نہیں ہے، جب وقت ہو گا تو یہ بھی کر لیں گے۔‘
’ہر ڈرامے سےلوگوں کو سیکھا نہیں سکتے لیکن کوشش ضرور کرتے ہیں‘ فہد مصطفیٰ کو ’بلا‘، ’چیخ‘، ‘نند‘ اور ’جلن‘ جیسے ڈرامے بنانے پر فخر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہر ڈرامے سے لوگوں کو سیکھا تو نہیں سکتے، لیکن جتنا کر سکتے ہیں، اس کی کوشش کرتے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’ٹی وی اب انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ بزنس بھی ہے، اور ہم لوگوں کو ہر وقت ترغیب نہیں دے سکتے کہ ایسا کرو اور ایسا نہیں، اسی لیے شاید ہم کہانی کے ذریعے انھیں صحیح اور غلط کا فرق سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘ فہد مصطفیٰ انھوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو کو ڈرامے تک لانے کے لیے نام بھی کچھ الگ ہی قسم کا ہونا چاہیے، اور اسی لیے ان کے ڈراموں کے نام زیادہ تر ایسے ہی ہوتے ہیں۔
ٹی وی پر چلنے والے مقبول ڈرامہ ’’نند‘ کے نام پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس ڈرامے کا نام کچھ اور ہوتا تو شاید وہ بات نہ ہوتی، ہم ذرا سیدھے آجاتے ہیں اس لیے لوگوں کو پتہ چلتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، لوگ پاکٹ فلمز دیکھ رہے ہیں، اس لیے انھیں 26 سے 30 اقساط تک جڑے رکھنے کے لیے ڈائریکٹ آنا پڑتا ہے۔ آپ کو ڈرامہ اچھا نہیں لگے گا تو چینل بدل دیں گے،اسی لیے ان ڈراموں کے نام ایسے رکھے جاتے ہیں جس سے لوگوں میں تجسس پیدا ہو۔‘
فہد مصطفیٰ کے خیال میں لوگوں کو ڈرامے کا مقصد سمجھنے کے لیے تھوڑا صبر سے بھی کام لینا چاہیے۔ ’ناظرین کو فیصلہ سنانا ہے تو کہانی ختم ہونے کے بعد سنائیں، درمیان میں نہیں۔‘ وہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اچھا لگے یا برا، لوگ ڈرامے دیکھ تو رہے ہیں اور یہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یہ ڈرامے نہ صرف ٹرینڈ پہ چلے جاتے ہیں، بلکہ لوگ انھیں انجوائے بھی کرتے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ کسی ڈرامے کے ہٹ ہونے میں صرف ان کی کاوش ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ ڈرامہ جس چینل پر چل رہا ہوتا ہے اس کا بھی عمل دخل ہوتا ہے، ایک ڈرامے کی کامیابی میں سب کا مشترکہ کردار ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب تک ڈرامہ ہٹ نہیں ہوتا سب برا ہوتا ہے، جیسے ہی ہٹ ہوتا ہے سب اچھا ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں ٹی وی ہمیشہ سے ایسا ہی تھا، لیکن اب لوگ اسے کچھ زیادہ ہی غور سے دیکھتے ہیں، تاکہ اس کے بارے میں رائے دے سکیں۔ ’ٹی وی آج سے نہیں، ہمیشہ سے ہی ایسا تھا، بولڈ اینڈ دی بیوٹی فل کے زمانے سے، لیکن اب چونکہ لوگوں کے پاس اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے مخلتف پلیٹ فارم موجود ہیں، تو سب دیکھتے بھی ہیں، اس پر منفی یا مثبت انداز میں بات بھی کرتے ہیں۔‘ فہد مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں جب تک لوگ ان ڈراموں پر بات کر رہے ہیں، تب تک صحیح ہے۔‘ ایک طرف بامقصد ڈرامے بنانے میں بگ بینگ سر فہرست ہے، تو پابندیاں بھی ان ہی ڈراموں پر لگتی ہیں، اس بارے میں فہد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے ڈراموں پر پابندی لگنے کا مطلب ہے کہ وہ دماغ لگا رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ڈرامے ’میری گڑیا‘، ’مقابل‘، ’رنگ لاگا‘، ’مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے‘، ایسے ڈرامے تھے جنھوں نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا۔ ’نند‘ اور ’جلن‘ پر شور اس لیے مچ رہا ہے کیونکہ ابھی آئے ہیں اور سب انھیں دیکھ بھی رہے ہیں، مجھے ایک پروڈیوسر ہونے کے ناطے دونوں ڈرامے پسند بھی ہیں اور میں ان کو اون کرتا ہوں، خوشی کی بات یہ ہے کہ امیر ہو یا غریب، ’نند‘ پر سب بات کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے کہا ’میں ایک کہانی دکھاتا ہوں، اچھی لگی تو لوگ دیکھیں گے، نہیں لگی تو نہیں دیکھیں گے، جس ڈرامے کی بات نہیں ہوتی وہ لوگ نہیں دیکھ رہے ہوتے، لوگ ‘نند’ اور ‘جلن ‘دونوں کی بات کر رہے ہیں۔‘
اپنے نئے آنے والے ڈرامے ڈنک پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈرامے ’ڈنک‘ کا انھیں انتظار ہے، انھیں نہیں پتہ کہ اس میں کیا ہے لیکن انھیں اتنا ضرور اندازہ ہے کہ اس میں بھی کچھ اچھا ہی ہو گا۔ کیا پابندی کے رحجان کو ختم کرنے کا وقت نہیں آگیا؟ فہد مصطفیٰ کا اس بارے میں کہنا تھا کہ کہ اگر کوئی شیکسپیئر کا میک بتھ اور اوتھیلو پر ڈرامہ بنائے تو کلاسی، وہ بنائیں گے تو اس کا نام جلن ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے ڈرامے لوگوں سے وہ سوالات کرتے ہیں جو شاید وہ سننا نہیں چاہتے، اور آپ ہمیشہ اس بات پر جھلملاتے ہیں یا چلاتے ہیں جس میں آپ خود غلط ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ڈراموں پر پابندی لگتی بھی ہے اور ہٹتی بھی۔ پیمرا حکام سے بھی ہماری بات ہوتی ہے، وہ اچھے لوگ ہیں، انھیں مصروف رکھنا ہمارا کام ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو کچھ بھی کہیں بھی چل جاتا تھا اور عشق ممنوع اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ مرکزی خیال کہیں سے بھی آ سکتا ہے۔ ’میرے لحاظ سے اس ڈرامے میں کوئی غیر اخلاقی بات نہیں ہوئی، جس کو برا لگا اس کا اپنا دماغی مسئلہ ہے۔‘ فہد مصطفیٰ کا شمار پاکستان کے بہترین میزبانوں میں بھی ہوتا ہے، ان کے گیم شو ’جیتو پاکستان‘ نے حال ہی میں 700 اقساط مکمل کیں ہیں جو کہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ فہد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے جیتو پاکستان کا آغاز کیا تھا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ شو ان کی زندگی بدل دے گا۔ ’میں آج جو کچھ بھی ہوں، اس میں جیتو پاکستان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس شو سے پہلے سب مجھے ایک اداکار کے طور پر جانتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ مجھے ڈرامہ سیریل ‘میں عبدالقادر ہوں’ سے لوگوں نے نوٹس کرنا شروع کر دیا تھا کہ یہ لڑکا اچھی اداکاری کرتا ہے، لیکن جیتو پاکستان کے بعد میں لوگوں سے قریب ہوا اور آج سب مجھے اسی شو کی وجہ سے جانتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ جیتو پاکستان کے آغاز کے دن مشکل تھے، کیونکہ وہ اس طرح کے پروگرام نہ دیکھتے تھے نہ کرتے تھے۔
‘جیتو پاکستان کو اپنے جیسا اور خود کو جیتو پاکستان جیسا بنانے میں مجھے وقت لگا، جب دونوں ایک پیج پر آ گئے تو گاڑی چل پڑی، میری زندگی کی جتنی بھی کامیابیاں ہے، اس میں جیتو پاکستان سب سے الگ ہے۔ یہ شو کسی اور ملک میں ہوتا تو شاید زندگی بھر کام کرنے کی ضرورت نہ پڑتی، لیکن اماں نے دعا دی تھی کہ بیٹا زندگی بھر محنت کرنا، وہی کر رہا ہوں۔ اگر یہ شو تین چار سال مزید چل گیا تو بہت اچھا ہو گا، اس شو کے ذریعے میں لوگوں سے ملتا رہتا ہوں۔‘ فہد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ہر سنیما بین کی طرح وہ بھی سنیما کے حالات دیکھ کر پریشان ہیں لیکن وہ فلم قائد اعظم زندہ باد سے پر امید ہیں کہ اس سے پاکستانی فلمیں اور سنیما انڈسٹری ایک بار پھر زندہ ہو جائے گی۔ اس فلم کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اس فلم میں بھی میں نے اپنے سٹنٹس خود کیے ہیں، زخمی بھی ہوا، اب امید کرتا ہوں کہ یہ فلم اگلے سال ضرور آئے گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’دکھ تو ہوتا ہے جب آپ محنت کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ دیر سے آتا ہے، کورونا وبا نے صرف مجھے ہی نہیں بلکہ پاکستانی فلم انڈسٹری میں سب پر اثرات مرتب کیے ہیں، ہم بڑی مشکل سے ایک ایسی جگہ پہنچے تھے جہاں لوگ فلم دیکھنے کے لیے انتظار کرتے تھے لیکن ابھی سب کچھ بدل گیا ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ فلم بنانے والے سب ہی لوگ محنت کرتے ہیں اور دل سے فلمیں بناتے ہیں۔ مختلف ویب پورٹلز یعنی او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہاں انڈیا کا راج ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر جہاں پاکستان کا ’پی‘ دیکھتے ہیں وہیں آگے بڑھا دیتے ہیں، لیکن اس سے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، مجھے یاد ہے کہ جب ‘نامعلوم افراد ‘آئی تھی تو اس نے ساری انڈسٹری کو بدل دیا تھا، اس وقت بھی ہمارا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں تھا، اس بار بھی ہمارا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں، سوائے اللہ کے۔ امید کرتا ہوں کہ فلم آئے گی تو لیڈ کریں گے اور دوسرے لوگ بھی کام شروع کر دیں گے۔‘ فہد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ ڈیجیٹل پر جو بھی پاکستان سے جائے، اچھی چیز، اچھا آئیڈیا جائے۔ ’میں نہیں چاہتا کہ پاکستان سے بھی وہی سب کچھ جائے جو دوسری جگہوں سے آتا ہے، ہم سافٹ پورن، خواہ مخوا کی گالیاں اور بکواس چیزوں سے بہت آگے ہیں، جب مجھے آج تک یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں پڑی تو اب کیوں پڑے گی، بہتر ہو گا کہ ہم ایک ایسی کہانی سنائیں جو پاکستانی لگے، اور پاکستانی ہو۔ اسی حوالے سے دو سکرپٹس تقریباً تیار ہیں، جلد ہی اس بارے میں اعلان بھی کروں گا۔