لاہور (ویب ڈیسک) نہ صرف ہمارے ملک کی بلکہ دنیائے اسلام کی حالت خراب ہے۔ ہر اسلامی ملک سخت پریشانیوں کا شکار ہے، کچھ مصیبتیں ان کی اپنی پیدا کردہ ہیں اور کچھ ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہیں۔پچھلے دنوں ملائیشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اسی حالت کی نامور سائنسدان اور کالم نگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں. وجہ سے کہا تھا کہ اُن کی اسلامی ممالک کو یکجا کرنے کی کوشش مغربی ممالک کو نہیں پسند اور ممکن ہے کہ وہ ان کو بھی قتل کرا دیں۔دراصل اسلامی ممالک کے خلاف یہ سلسلہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا۔
انگریزوں اور فرانسیسیوں نے مشرقِ وسطیٰ کا بیڑا غرق کرکے سلطنت ِ عثمانیہ کا خاتمہ کردیا اور شام و عراق اور فلسطین پر قبضہ جما لیا۔تابوت میں آخری کیل کے طور پر دوسری جنگِ عظیم کے بعد انگریزوں نے فلسطین میں مقامی آبادی پر ظلم و ستم ڈھاکر اسرائیل قائم کردیا اور اسے ایک پاگل بیل کی طرح شیشے کی دکان میں چھوڑ دیا۔دیکھیے پہلے انڈونیشیا میں آمریت لائے، ترکی میں آمریت لائے، عراق میں، ایران میں، پاکستان میں اور دوسرے کئی ممالک میں یہ لعنت عوام پر مسلط کردی۔ پھر اس سے بھی بدتر یہ کام کہ خود اسلامی ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانا شروع کردیا۔ آج بھی ایران، سعودی عرب، امارات، قطر، یمن، لیبیا اور پاکستان انہی کی سازشوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارا اپنا ملک مصیبتوں کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔سنہرے خواب دکھانے والی پارٹی اور اس کے سربراہ نے ملک کا ستیاناس کردیا ہے یہ وہی کیفیت ہے جو ہماری ہاکی ٹیم کے ساتھ ہوئی ہے۔ کھلاڑی بدلے، کپتان بدلے، کوچ بدلے نتیجہ صفر۔یہی حال موجودہ حکومت کا ہے۔ باہر سے لوگ بلا بلا کر اعلیٰ عہدوں پر لگا دیے ہیں جو دولت کما کر واپس چلے جائیں گے۔ کم از کم وزیر اعظم کا
ایک وعدہ تو پورا ہوگیا کہ لوگ باہر سے آکر پاکستان میں ملازمتیں کریں گے۔پچھلے دنوں موجودہ حکومت کے افسوسناک اقدامات سامنے آئے، گندم برآمد کردی گئی اور پھر باہر سے منگوائی گئی۔یہی حال چینی کا ہے۔ ایک زرعی ملک میں ٹماٹر تین سو روپے کلو اور پیاز، آلو، شلجم اور گوبھی وغیرہ متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہیں۔ یہی حال دیگر سبزیوں، ترکاریوں اور پھلوں کا ہے۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ نہایت معمولی پروجیکٹس تک اس حکومت سے تکمیل تک نہیں پہنچ سکے۔ پشاور کی میٹرو بس، اسلام آباد کی ایئر پورٹ جانے والی میٹرو بس۔ اسلام آباد ایئر پورٹ سے شہر آنے والی سڑک پر کھمبے لگے ہوئے ہیں مگر ڈیڑھ سال میں وہاں بجلی کا کنکشن تک نہیں دیا گیا۔ یہی صورتحال ہر جگہ ہے۔لوگ مہنگائی سے مرے جارہے ہیں دوائیں تو دور کی بات، کھانے کی اشیا اب متوسط طبقہ نہیں خرید سکتا۔ لوگ بازار جاتے ہیں گھومتے پھرتے ہیں، چیزوں کی قیمتیں پڑھتے ہیں اور گھر واپس آجاتے ہیں۔لاتعداد لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ حکومت کو آئی ایم ایف کو خوش کرنے کیلئے ہر استعمال ہونے والی چیز پر ٹیکس لگانا اور قیمتیں بڑھانا پڑ رہی ہیں۔لاتعداد معاونِ خصوصی ہیں، چھوٹی وزارت صرف نعرہ تھا۔ سیاسی لیڈر کھلے عام جب عوام سے وعدہ کرکے مکر جاتے ہیں تو عوام کی نگاہ میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ اس حکومت سے سابقہ حکومتیں ہزار درجہ بہتر تھیں۔ اِنہیں برآمد بڑھانا نہیں آتی، قیمتوں میں اضافہ کرنا آتا ہے۔عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ ہم ہر ہفتہ جو رقم خرچ کرتے تھے اب اس سے دگنی رقم بھی کافی نہیں پڑ رہی ۔ غربت نہیں غریبوں کو ختم کیا جارہا ہے۔(ش س م)