لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) کم عمر ی میں شادی کے نقصانات اور طلاق کے بڑھتے ہوئے برجحان کو دیکھتے ہوئے پنجاب حکومت نےلڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 18سال مقرر كرکرنے کا اعلان کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت نے لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر18سال مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدام معاشرے میں کم عمری کی شاد ی کے بھیانک اثرات کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد 18سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کو قانوناً جرم تصور کیا جائے گا۔ اس اقدام سے طلاق کی شرح میں خاطر خواہ حد تک کمی دیکھی جا سکے گی۔اس سے قبل یہ حد سولہ سال تک مقرر تھی، شادی کے قانون میں اس
تبدیلی کی منظوری کے لیے باقاعدہ سمری وزیراعلی کو ارسال کی جا چکی ہے۔ حکومت کے فیصلے کو خواتین نے خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ اس سے خواتین کے مسائل میں کمی ہو گی۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ لڑکی کی شادی کی عمر میں دو سال کے اضافے سے طلاق کی بڑھتی شرح میں واضح کمی دیکھنے میں آئے گی ۔ماہر قانون عبداللہ ملک نے کہا کہ صرف قانون سازی ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس معاملے پر اصل بات قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔ واضح رہے کہ 10 اکتوبر2018ء کو لڑکیوں کی شادی کی عمر سولہ کے بجائے اٹھارہ سال کرنے کی قرارداد صوبائی اسمبلی میں جمع کروائی گئی تھی۔ جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے شادی کی کم از کم عمر 18 سال کرنے کا بل رواں سال جنوری کے آخر میں منظور کر لیا تھا جبکہ اس سے قبل عمر کی حد 16 سال تھی۔پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے چائلڈ میرج کی عمر کی حد مقرر کرنے سے متعلق ترمیمی بل 2018ء پیش کرتے ہوئے کہا کہ لڑکے و لڑکیوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر 16 سال کے بجائے 18 سال کی جائے، یہ بل وفاق کے لیے ہے لیکن صوبے بھی اس کی پیروی کریں۔ خیال رہے کہ سندھ میں یہ بل پہلے ہی پاس ہو چکا ہے۔