اسلام آباد (نیوز ڈیسک) شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ یہ بات تو ہم نے سُن رکھی ہے۔ ہمارے ملک کے کئی جوان دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوئے ، کئی جوان لڑکیاں بیوہ ہوئیں اور کئی مآں کو اپنے لخت جگر سے جُدا ہونا پڑا۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ایسی ہی والدہ کا خط وائرل ہوا جو انہوں نے اپنے شہید بیٹے کے نام تحریر کیا تھا۔تفصیلات کے مطابق مسز ساجدہ ربانی نے یہ خط اپنے بیٹے شہید کیپٹن آکاش ربانی کے نام لکھا ۔ اپنے خط میں مسز ساجدہ ربانی نے کہا کہ میرے بیٹے آکاش تمہیں دیکھے ہوئے مجھے پانچ سال ہو گئے، 2014ء کی 17 اور 18 مئی کو ہم سب آخری دفعہ
اکٹھے تھے، وہ ہماری زندگی کے حسین ترین ، پُر سکون اور بہت قیمتی دو دن تھے۔مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں اپنے شہزادے سے آخری بار مل رہی ہوں۔میں ایک طرح سے خوش بھی ہوں کہ زندگی سے تین سال کم ہو گئے ہیں اور تم سے ملنے کے ٹائم میں کچھ کمی ہوئی ہے۔ پر یہ تو میرا اللہ ہی جانتا ہے کہ ابھی بھی کتنا فاصلہ باقی ہے۔ مجھے جنت کا تصور اچھا لگتا ہے صرف اس لیے کہ وہاں موت نہیں ہو گی اور کوئی کسی سے نہیں بچھڑے گا۔ پتہ نہیں جنت میرے نصیب میں ہے یا نہیں، مجھے بس اسی جنت کا انتظار ہے جہاں میرے بچے میرے ساتھ اکٹھے ہوں، میری ساری فیملی ، میرے ابو تمہارے دادا ابو سب اکٹھے ہوں۔الگ ہونے یا بچھڑنے کی کوئی بات نہ ہو۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ ڈائننگ ٹیبل پر تمہاری کُرسی خالی ہوتی ہے، لاؤنج میں بھی تمہاری سیٹ خالی ہوتی ہے۔ میز پر تمہارے نام کی پلیٹ نہیں ہوتی۔ اب نہ تو مجھے تمہارا انتظار ہوتا ہے ، نہ تمہارے کپڑے دھلتے ہیں اور نہ ہی مجھے تمہارا بستر بنانا ہوتا ہے، اب میرے فون پر تمہارا نام نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر وائرل اس خط کو آپ بھی پڑھیں۔اس خط میں انہوں نے مزید کہا کہ کاشی مجھے قدم قدم پر ہر بار تمہاری کمی محسوس ہوتی ہے۔ پلیز واپس آ جاؤ ، میں رات کو سونے سے پہلے اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ بے شک کاشی آپ کا دیا ہوا تحفہ تھا آپ کی امانت تھی آپ کو بھی بہت پیارا تھا آپ نے مجھ سے واپس لے لیا ، میں آپ سے گلہ نہیں کر سکتی لیکن پلیز مجھے خواب میں تو اس سے ملوا دیا کریں۔تاکہ میں اس کو دیکھ لوں۔ میری ساری خواہشیں ختم ہو کر صرف ایک خواہش رہ گئی ہے کہ میں کاشی کو کب دیکھوں گی۔ کاسی اور کیا بتاؤں تین سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا، لوگوں
کو پریشانی ہوتی ہے کہ زندگی تیزی سے گزر رہی ہے ختم ہو جائے گی اور میں یہاں زندگی ختم ہونے کے انتظار میں جیے جا رہی ہوں۔ زندگی عجیب سی ہے ، خوشی کی بات پر بھی خوشی نہیں ہوتی۔آکاش ہم کیپٹن سلمان سرور کے یوم شہادت پر لاہور گئے تھے۔ وہاں سلمان کا یوم شہادت پوری اچھی طرح سے آرگنائز کیا گیا تھا ، سب فیمیلیز آئی ہوئی تھیں، ہم سب کے چہروں پر ایک ہی کہانی تحریر تھی جو ہم بآسانی ایک دوسرے کے چہرے سے پڑھ سکتے تھے۔ اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ وہ دو دن بہت اچھے گزرے۔ شہید کیپٹن آکاش کی والدہ کے اس خط نے سوشل میڈیا پر مقبولیت حاصل کی تو ہر ایک کو اشکبار کر دیا۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ ہمیں خوشی کے موقع پر شہدا کے اہل خانہ کو یاد رکھنا چاہئیے اور ان کے لیے صبر کی دعا بھی کرنی چاہئیے۔