Saturday July 27, 2024

زینب کے قاتل کےخلاف تحقیقات، ملکی تاریخ کا کون سا انوکھا ریکارڈ قائم ہو گیا؟؟؟کتنے گھنٹوں میں ٹرائل مکمل؟؟دلچسپ رپوٹ

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک )معصوم زینب قتل کیس کے فیصلے سے تیز ترین ٹرائل کی نئی تاریخ رقم ہوگئی ،پاکستان میں پہلی مرتبہ 96 گھنٹے میں کسی ملزم کا ٹرائل مکمل ہوا،کیس میں 56گواہان کے بیانات ریکارڈکئے گئے ان پر جرح ہوئی، اپنی نوعیت کے اہم ترین کیس میں لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لیا اور ٹرائل کورٹ کو سات روز کے اندر

فیصلہ کرنے کا پابند کر دیا۔ روزانہ کی بنیاد پر کیس کی کئی کئی گھنٹے سماعت ہوتی رہی بلکہ اس کیس کی تفتیش کے لیئے جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے برق رفتاری سے اپنا کام احسن طریقے سے انجام دیا۔تفصیلات کے مطابق 23 جنوری کو زینب کے قاتل کو قصور قبرستان سے گرفتار کیا گیا۔24 جنوری کو قاتل کو انسداددہشت گردی کی عدالت نمبر 1 میں حصول ریمانڈ کے لئے پیش کیا گیا۔انسداد دہشت گردی کے ایڈمن جج سجاد احمد نے کیس کی سماعت کی۔عدالت نے ملزم کو 14 روزہ ریمانڈ پر سی ٹی ڈی کے حوالے کیا۔24 تاریخ کو ملزم کا پہلا ویڈیو بیان منظرعام پر آیا،ملزم نے ویڈیو میں بتایا کہ وہ بچی کو کیسے لیکر گیا اور کیا کیا۔25 تاریخ کو لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا حکم دیا گیا۔عدالتی احکامات کے مطابق 7 دن کے اندر ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔25 جنوری کو زینب کے والد کی جانب سے ا?فتاب باجوہ نے کیس لڑنے کا اعلان کیا۔ سپریم کورٹ بار کے سابق سیکرٹری ماہر ضابطہ فوجداری قانون آفتاب باجوہ نے زینب کیس کی فیس 10 روپے مقرر کی۔26 جنوری کو زینب کے قاتل کی فوٹیج لیک ہونے پر سی آئی اے کے

اہلکاروں کیخلاف مقدمہ درج ہوا،28 جنوری کو زینب قتل کیس کی سماعت سپریم کورٹ رجسٹری میں ہوئی۔عدالت نے پراسکیوٹر جنرل کو زینب کیس میں عدالتی معاونت کا حکم دیا۔عدالت نے زینب کے والد اور اس کے وکیل کو کوئی بھی بیان میڈیا پر دینے سے روک دیا۔سپریم کورٹ نی قصور میں تعینات متعلقہ ڈ ی ا یس ایس پی او ایس ایچ او سے متعلق رپورٹ طلب کی۔سپریم کورٹ نے زینب کے والد کو اپنا بیان ریکارڈ کروانے کا حکم دیا۔سپریم کورٹ میں اس موقع پر زینب سمیت قتل ہونے والی نو بچیوں کے ورثا بھی پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے تمام لواحقین سے افسوس کا اظہار کیا۔ جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت میں اپنی رپورٹ جمع کروائی۔ملزم عمران کو 6 فروری کو مزید 8 بچیوں کے قتل کے الزام میں ریمانڈ کیلئے پیش کیا گیا۔انسداددہشت دہشت گردی عدالت نے ملزم کو 3 دن کے ریمانڈ پر پولیس کے

حوالے کردیا۔زینب کے والد کی جانب سے آفتاب باجوہ نے ریکارڈ کے حصول کیلئے7 فروری کو درخواست دائر کی۔درخواست میں سی سی ٹی وی فوٹیج، ڈی این اے ٹیسٹ ،فرانزک ٹیسٹ اور ریکارڈ مہیا کرنے کی استدعا کی گئی،انسداد دہشتگردی کی عدالت نے زینب کے والد کے وکیل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے قرار دیا کہ ہائی پروفائل کیس ہونے کی بنا پر آپ کو کوئی بھی ریکارڈ فراہم نہیں کیا جاسکتا، 7 فروری کو عمران کو 14 روزہ ریمانڈ ختم ہونے پر دوبارہ پیش کیا گیا۔پراسکیوشن نے مزید 2 دن کے ریمانڈ کی استدعا کی۔عدالت نے تفتیش مکمل نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا، عدالت نے کہا کہ اگر ان دنوں میں کچھ نہیں کر سکے تو اب کیا کریں گے، پراسیکویشن نے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم کے خلاف تفتیش آخری مراحل میں ہے صرف 2 دن دئیے جائیں۔ 9 فروری کو ملزم کو 2 دن کے ریمانڈ کے بعد پیش کیا گیا۔ملزم کے خلاف تفتیش مکمل ہونے پر پراسکیوشن نے چالان عدالت

میں جمع کروایا۔عدالت نے پراسکیوٹر عبدالروف وٹو سے استفسار کیا کہ کیا ثبوت اکٹھے کیے۔ جس پر پراسکیوٹر عبدالرف نے کہا کہ ملزم کیخلاف دوران تفتیش 6 ثبوت اکٹھے کیے گیے، ملزم کا ڈی این اے میچ ہوا، ملزم کا ڈی این اے مثبت آیا، 4 سی سی ٹی وی فوٹیجز میں ملزم کی نشاندہی ہوئی،ملزم کی فوٹو فوٹیج کے تجزیہ سے نشاندہی کی گئی،ملزم سے کپٹرے، جیکٹ اور ٹوپی برآمد کی گئی۔ملزم کے خلاف 56 لوگوں کے بیانات قلمبند کروائے گیے۔عدالت نے ملزم کو زینب کے قتل میں ملزم کا ٹرائل اور 8 بچیوں کے قتل میں جوڈیشل کرنے کا حکم دیا۔9 فروری کو ملزم کے وکیل کو چالان کی کاپی فراہم کی گئی،10 فروری کو سپریم کورٹ نے ملزم کا ٹرائل شروع ہونے پر کیس نمٹا دیا،12 جنوری سے کوٹ لکھپت جیل میں ٹرائل کا آغاز کیا گیا، اس طرح جیل میں مسلسل چار سماعت کے بعد 15 فروری جمعرات کو فیصلہ محفوظ کیا گیا۔ہفتہ سترہ فروری کو عدالت نے اپنا فیصلہ سْنایا ۔

FOLLOW US