Tuesday May 21, 2024

جوتے کی نوک پر لکھتے ہیں۔۔۔ امریکا کےبدنیتی پر مبنی پیغام پر نئے پاکستان کا ایک اور تڑاکے دار جواب کروڑوں پاکستانی بھی کہیں گے ” ایتھے رکھ ناں “

جوتے کی نوک پر لکھتے ہیں۔۔۔ امریکا کےبدنیتی پر مبنی پیغام پر نئے پاکستان کا ایک اور تڑاکے دار جواب کروڑوں پاکستانی بھی کہیں گے ” ایتھے رکھ ناں “

اسلام آباد(آئی این پی ) پاکستان نے مذہبی آزادی کی پامالی کے امریکی الزام پر مبنی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے اسے ‘یک طرفہ’ اور ‘سیاسی جانبداری’ پر مشتمل قرار دے دیا اور کہا ہے کہ امریکا کو اپنے ملک میں بڑھتے ہوئے اسلام فوبیا کی وجوہات تلاش کرنے کی ضرورت ہے، انسانی حقوق کے عالمی علمبرداروں کو مقبوضہ کشمیرمیں خلاف ورزیاں نظرنہیں آرہیں، پاکستان کو کسی ملک سے اقلیتوں کے تحفظ کا درس دیئے جانے کی ضرورت نہیں۔ تفصیلات کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی ملک کے مشورے کی ضرورت نہیں۔ترجمان کے مطابق ایسے فیصلوں سے واضح امتیاز’ ظاہر ہوتا ہے اور اس ‘ناجائز عمل’ میں شامل خودساختہ منصفین کی شفافیت پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کثیر المذہبی ملک اور کثرت پسندانہ معاشرہ ہے، جہاں مختلف عقائد اور فرقوں کے حامل لوگ رہتے ہیں اور پاکستان کی آبادی کا 4 فیصد مسیحی، ہندو، بدھ اور سکھ عقائد سے تعلق رکھتا ہے۔ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان میں قانون سازی اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کے لیے اقلیتوں کی مخصوص نشستیں رکھی جاتی ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومتوں نے اقلیتی مذاہب کے افراد کو تحفظ فراہم کرنے کو فوقیت دی ہے جبکہ انسانی حقوق کا آزادانہ قومی کمیشن اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھتا ہے۔ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اعلی عدلیہ نے بھی اقلتیوں کی عبادت گاہوں اور املاک کے تحفظ کے لیے کئی اہم فیصلے دیئے ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان بنیادی حقوق کی آزادی سے متعلق ذمہ داریاں ادا کر رہا ہے اور انسانی حقوق کے 9 میں سے 7 عالمی سمجھوتوں کا رکن بھی ہے۔ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے امریکا میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے اسباب کا ایماندارانہ جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے باور کروایا کہ انسانی حقوق کے علمبردار بننے والوں نے مقبوضہ جموں میں مظالم سے آنکھ بند کر رکھی ہے۔

FOLLOW US