Friday October 18, 2024

خان صاحب میری ان چند گزارشات پر غور کرو اور میڈیا کو لگام ڈالو ورنہ یہ بے لگام میڈیا تمہاری جڑوں میں بیٹھ جائے گا ۔۔۔۔۔ صف اول کے صحافی نے عمران خان کو مشورہ دے دیا

لاہور(ویب ڈٰیسک) میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ سب سے پہلے صحافی بننے کا معیار مقرر کرے۔ اس کے لیے آغاز اسلام آباد پریس کلب کے ممبران کی چھان بین سے کرے۔ جو ممبران Mass Com میں گریجویٹ ہوں اور کم از کم ایک ماہ کی پروفیشنل ٹریننگ حاصل کی ہو،

صف اول کے کالم نگار میاں عمران احمد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ انھیں صحافی کا سرٹیفیکٹ جاری کر دیا جائے اور باقی تمام ممبران چاہے وہ کسی بھی پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہوں انکی بطور صحافی رکنیت ختم کر دی جائے۔ اگر کسی، موٹر مکینک، دودھ بیچنے والے، ٹرک درائیور، کمپوڈر اور سنزی فروش کو بھی صحافی کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا گیا ہے توسب سے پہلے ان ذمہ داران تک پہنچا جائے جنھوں نے یہ سرٹیفیکیٹ جاری کیے ہیں ، ان کے خلاف مقدمات بنائے جائیں اور قانون کے مطابق سزا دلائی جائے تا کہ آئندہ کسی میں اس مقدس پیشے سے کھیلنے کی جرات نہ ہو سکے۔نیوز چینل کا لائسنس دینے سے پہلے مالی حیثیت کے علاوہ انتظامی مہارت اور متعلقہ تعلیمی قابلیت کو بھی مد نظر رکھا جائے۔ کسی بھی کمپنی کو نیوز چینل لائسنس جاری کرنے سے پہلے ان کے مالکان میں سے کم از کم ایک ڈائیرکٹر کا Mass Com میں گریجویٹ ہونا لازمی قرار دیا جائے۔تمام نیوز چینلز کے لیے کسی سرکاری یا پرائیوٹ یونیورسٹی کے Mass Com ڈپارٹمنٹ کے ساتھ الحاق لازمی قرار دیاجائے ۔تا کہ ضرورت پڑنے پر یونیورسٹی طلبہ چینل سے اور چینل یونیورسٹی سے فائدہ اٹھا سکے۔ہر چینل میں ایک آزادانہ بورڈ بنایا جائے جو کہ پیمرا، ملحقہ یونیورسٹی،

سکیورٹی ایجنسیز، علما، میڈیا کے ایکسپرٹس کے ایک ایک نمائندے پر مشتمل ہو۔ جو چینل کی انتظامیہ سے آزاد ہواور صرف پیمراکو چینل کی کارکردگی کے حوالے سے ماہانہ رپورٹ پیش کرے۔ پیمرا اس رپورٹ کی بنیاد پر لائسنس جاری رکھنے یا معطل کرنے کا فیصلہ کرے۔ اس کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے والے اینکرز، تجزیہ کار، نیوز کاسٹرز، سیاسی پارٹیوں کے میڈیا نمائندوں ، سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کے میڈیا نمائندوں کا ریکارڈ پیمرا کے پاس موجود ہونا چاہیے۔ ان تمام حضرات کو میڈیا میں بیٹھنے کا لائسنس پیمرا جاری کرے۔ اس لائسنس کی مدت ایک سال ہونی چاہیے جسے ہر سال ری نیو کروانا لازمی ہو۔ان اینکرز اور تجزیہ کاروں کو لائسنس جاری کرنے سے پہلے ان کے لیے ایک ماہ کی ٹرینگ لازمی قرار دی جائے۔یہ ٹریننگ بھی پیمرا کے پلیٹ فارم سے کروائی جائے۔ پوری دنیا سے میڈیا ایکسپرٹس کو مختلف سیشنز میں بلایا جائے۔جن میں سی این این اور بی بی سی کے ایکسپرٹس بھی شامل ہوں۔ اس کے علاوہ ٹریننگ کے دوران بہتر پرفارم کرنے والوں کو ایوارڈز دیے جائیں اور انھیں حکومت کی طرف سے بیرون ملک ٹریننگ کے لیے بھجوایا جائے۔ٹریننگ سے واپسی پر انھیں پیمرا کی ٹریننگ ٹیم کے ساتھ چھ ماہ تک منسلک رکھا جائے

تا کہ موجودہ ٹریننگ ٹیم اور نئے آنے والے ممبرز ان کے تجربے سے مستفید ہو سکیں۔ نیوز کاسٹرز، اینکرز اور تجزیہ کاروں کے ناموں کے ساتھ جونئیر اور سینیر کے ٹیگ لگانے سے پہلے ان کے کوائف کا تفصیلی جائزہ لازمی قرار دیا جائے۔ یہ عہدے بھی انھیں پیمرا کی طرف سے جاری کیے جائیں۔ ان کے بیانات اور انٹرویوز کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے اور جیسے ہی یہ کوالٹی کے طے شدہ معیار سے نیچے گریں ان سے یہ عہدے واپس لے لیے جائیں اور انھیں کسی بھی چینل پر بیٹھنے سے روک دیا جائے۔تا کہ خود ساختہ سینیر اینکروں، اورتجزیہ کاروں سے جان چھڑوائی جا سکے۔ پیمرا الیکٹرانک میڈیا کے لیے مالی جرمانوں کی حد میں اضافہ کرے۔ پیمرا رولز کے مطابق کسی بھی چینل کو زیادہ سے زیادہ مالی جرمانہ دس لاکھ روپے ہے۔ جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے منہ اٹھا کر کسی کو بھی گالی دے جاتا ہے یا الزامات کی بھرمار کر دیتا ہے اور جب پیمرا میں کیس چلتا ہے تو چینل کو زیادہ سے زیادہ مالی جرمانہ دس لاکھ روپے کر دیا جاتا ہے جو کہ چینل صرف تین منٹ کے اشتہار سے کما لیتا ہے۔

میڈیا ہاوس دو سو کروڑ روپے کا پروجیکٹ ہے۔ اس کا کم از مالی جرمانہ پچاس لاکھ اور زیادہ سے زیادہ دو کروڑ روپے مقرر کیا جائے۔ اس کے علاوہ اگر پیمرا کی طرف سے لائسنس یافتہ اینکر یا تجزیہ کار کوئی جھوٹی خبر دیتے ہیں یا کسی غلط خبر پر بغیر تحقیق کے بیپر دے دیتے ہیں ان پر تین ماہ کے لیے تمام میڈیا چینلز میں جانے پر پابندی لگا دی جائے اور تین ماہ کی تنخواہ بطور جرمانہ پیمرا کو جمع کروائی جائے۔ تمام میڈیا ہاوسز کو پابند کیا جائے کہ وہ ان پر لگائی گئی پابندی اور جرمانے کے ٹکر چلائیں اور اپنے خبرنامے میں بھی اس کا ذکر کریں تاکہ عوام کو اندازہ ہو سکے کہ کون صحیح خبریں دے رہا ہے اور کون غلط خبریں چلا رہا ہے۔ انھیں کس کی بات پر یقین کرنا چاہیے اور کس کی بات کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ میری تحریک انصاف کی حکومت سے گزارش ہے کہ وہ میڈیا کے لیے پالیسی بناتے وقت ان حقائق اور سفارشات کو ضرور مدنظر رکھے۔ کیونکہ ان سفارشات کو عملی جامعہ پہنائے بغیر صاف اور شفاف میڈیا انڈسڑی کا قیام نا ممکن ہے۔ آپ جس دن ان سفارشات پر عمل درآمد کرنے کا اعلان کر دیں گے اسی دن پچاس فیصد جھوٹی خبروں، جھوٹے تجزیوں، جعلی صحافیوں، نا اہل میڈیا مالکان، نام نہاد تجزیہ کاروں اور بلیک میلر اینکرز سے آپ کی حکومت اور پاکستانی عوام کی جان چھوٹ جائے گی اور اگر آپ نے میڈیا کو لگام نہ ڈالی تو بلیک میلر میڈیا آپ کی حکومت کی جڑوں میں بیٹھ جائے گا، یہ جھوٹ بول بول کر آپ کا سر لے جائے گااور آپ بھی پوچھتے پھریں گے کہ مجھے کیوں نکالا؟مجھے کیوں نکالا؟ مجھے کیوں نکالا؟

FOLLOW US