Saturday October 19, 2024

سا نحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں طلب پولیس افسران کی شامت آگئی۔۔۔ پاکستان عوامی تحریک نے وزیر اعظم عمران خان سے اب تک کا بڑا مطالبہ کر دیا

لاہور(ویب ڈیسک) پاکستان عوامی تحریک نے وزیرِ اعظم عمران خان کے نام خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں طلب پولیس افسران کو عہدوں سے ہٹایا جائے۔تفصیلات کے مطابق پی اے ٹی نے وزیرِ اعظم کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ اعظم سلیمان چیف سیکرٹری

پنجاب کے عہدے کے لیے امیدوار ہیں، جب کہ وہ سانحۂ ماڈل ٹاؤن کے موقع پر ہوم سیکرٹری پنجاب تھے۔پاکستان عوامی تحریک نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کےنام بھی خط ارسال کر دیا ہے، خط میں کہا گیا ہے کہ سانحے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا کی طرف سے طلبی کے لیے دائر رٹ میں اعظم سلیمان کا نام بھی شامل ہے۔خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ماڈل ٹاؤن آپریشن کا فیصلہ کرنے والی میٹنگ میں بھی اعظم سلیمان شریک تھے، انھوں نے باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ کیس میں طلب پولیس افسران کو عہدوں سے ہٹایا جائے، پاکستان عوامی تحریک کا مؤقف ہے کہ سانحے میں ملوث کسی افسر کو اہم عہدہ ملنے سے ٹرائل متاثر ہوگا۔خط میں کیس کے حوالے سے پاکستان تحریکِ انصاف کے کردار کا بھی ذکر کیا گیا ہے، لکھا گیا ہے کہ پی ٹی آئی متاثرین کو انصاف دلوانے کی جدوجہد میں شریک رہی ہے، جب کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے سانحے کی غیر جانب دارانہ تحقیق کے بیان کا بھی خیر مقدم کیا جاتا ہے۔مذکورہ خط خرم نواز گنڈا پور نے وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو لکھا، خط کی کاپی

وفاقی وزیرِ داخلہ اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو بھی ارسال کر دی گئی ہے۔واضح رہے کہ جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں جامع منہاج القرآن کے دفاتر اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر بیرئیر ہٹانے کے لیے خونی آپریشن کیا گیا، جس میں خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق جب کہ 90 افراد زخمی ہو گئے تھے۔دوسری جانب ایک خبر کے مطابق پنجاب میں ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو چار سال بیت گئے لیکن شہدا کے لواحقین اب بھی انصاف کے منتظر ہیں کہ آخر کب ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی۔تفصیلات کےمطابق مسلم لیگ ن کے موجودہ صدر اور اُس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے دور اقتدار 2014 میں بیرئیر ہٹانے کے معاملے پر ایسا پولیس آپریشن کیا گیا، جس میں حکومتی اشاروں پر پولیس نے نہتے شہریوں پر براہ راست گولیاں چلادیں، فائرنگ سے خواتین سمیت چودہ افراد جان سے گئے جبکہ نوے افرادزخمی ہوئے تھے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن پنجاب میں لیگی اقتدار پر سیاہ ترین دھبہ، طاقت کا نشہ، مخالفین کو کچلنے کی پالیسی، ظلم کی اندوہناک داستاں ثابت ہوا، خادم اعلیٰ کے اشاروں پر نہتے شہریوں کو پولیس نے گولیوں سے بھون دیا تھا۔جون 2014 میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں

جامع منہاج القرآن کے دفاتر اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر بیرئیر ہٹانے کے لیے خونی آپریشن کیا گیا، خاص مقصد کے تحت بارہ تھانوں سے بلائی گئی پولیس نے بات چیت یا مذاکرات کے بجائے سیاسی کارکنوں پربراہ راست فائرنگ کردی تھی۔اس حملے میں دو خواتین سمیت چودہ افراد جاں بحق اور نوے زخمی ہوئے، انصاف کے لیے پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج پر جوڈیشیل کمیشن بنا اور عدالتی حکم پر نوازشریف، شہبازشریف سمیت اکیس افراد کے خلاف اٹھائیس اگست کو قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔بعد ازاں جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں بننے والے یک رکنی جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ بھی چھپائی گئی، آخر کار عدالتی حکم پر رپورٹ منظر عام پر آئی تو ذمہ دار شہباز شریف کی حکومت قرار پائی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہباز شریف نے پولیس کو موقع سے ہٹانے سے متعلق جھوٹ بولا تھا۔علاوہ ازیں رانا ثناءاللہ کی زیر صدارت اجلاس خون ریزی کا سبب بنا، پاکستان عوامی تحریک تاحال انصاف کی منتظر ہے، علامہ طاہر القادری نے کل جماعتی کانفرنس سے لے کر ملک گیر احتجاج تک کیا، لاہور سے اسلام آباد انقلاب مارچ میں بھی انصاف کی دہائی دی گئی، اور قاتلوں کو کٹہرے میں لانے کے لیے ملکی عدالتوں میں بھی قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔

FOLLOW US