Wednesday October 23, 2024

وزیر اعظم عمران خان مگر اپوزیشن لیڈر کون؟ اچانک معاملہ الجھ کیوں گیا ؟بڑی خبر آ گئی

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران پاکستان کے 22 ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں، اب اپوزیشن لیڈر کا اعلان ہونا باقی ہے، ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن لیڈر کے نام کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے انکشاف کرتے ہوئے

کہا کہ ان کے پاس پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو قائد حزب اختلاف بنانے کی تجویز آئی ہے اور ان کا نام اپوزیشن لیڈر کے لیے 111 ارکان اسمبلی نے تجویز کیا ہے۔قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ابھی اس معاملےکو دیکھا جا رہا ہے اور اس کا حتمی اعلان 20 اگست تک ہو جائے گا۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ملک کے 22ویں وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں وہ ہفتہ کو ایوان صدر حلف اٹھائیں گے ٗتحریک انصاف کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار عمران خان نے 176ووٹ حاصل کئے ٗ ان کے مد مقابل شہباز شریف کو 96ووٹ ملے ٗ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا۔ جمعہ کو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہواجس میں قائد ایوان کا انتخاب عمل میں آیا ٗایوان میں نئے قائد کا انتخاب ڈویژن کے ذریعے کیا گیا۔ اسپیکر نے اراکین کوقائد ایوان کے انتخاب کے طریقہ کار سے متعلق آگاہ کیا اور اراکین کو ہدایت کہ جو اراکین عمران خان کے حق میں ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں تو اسپیکر کے دائیں جانب لابی اے میں چلے جائیں اور جو شہبازشریف

کو ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں وہ اسپیکر کے بائیں جانب لابی بی میں چلے جائیں جس کے بعد اراکین اپنی اپنی لابی میں چلے گئے۔رائے شماری کا عمل مکمل ہونے کے بعد اسپیکر نے نتائج کا اعلان کیا جس کے تحت عمران خان قائد ایوان منتخب ہوگئے، عمران خان کو 176 جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے قائد ایوان کے انتخاب میں کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔رائے شماری میں عمران خان کو تحریک انصاف کے علاوہ ایم کیوایم، بی اے پی، مسلم لیگ (ق)، بی این پی، عوامی مسلم لیگ اور جے ڈبلیو پی کے ارکان نے ووٹ دیا۔مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف کو ان کی جماعت کے علاوہ ایم ایم اے کے ارکان کی بھی حمایت حاصل تھی۔نومنتخب وزیر اعظم عمران خان ہفتہ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں ہوگی اور صدر مملکت ممنون حسین ان سے حلف لیں گے۔ تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت نامے جاری کئے جاچکے ہیں۔ یاد رہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وزیراعظم کو مملکت کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت حاصل ہے جو اپنی کابینہ کے ذریعے امور مملکت چلاتا ہے ٗاب تک 21 سربراہان اس

عہدے پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے اپوزیشن لیڈرکے نام کا اعلان20 اگست کوکردیاجائے گا،قائد ایوان کے انتخابا ت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا 111ارکان نے دستخطوں کے ساتھ شہبازشریف کانام جمع کرادیاہے ۔واضح رہے عام انتخابات کے بعد ملک میں اصل معرکہ حکومتی اتحاد اور اپوزیشن اتحاد کے مابین صدارتی انتخاب میں ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں نے منظم ہوکر صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تو ون ٹو ون مقابلہ ہوگا اور کامیابی محض ایک یا دو ووٹوں کے فرق سے ہوگی۔ یہ بات طے ہے کہ وزیر اعظم کے انتخاب کی طرح اپوزیشن تقسیم نہ ہوئی اورمنظم ہوکر صدارتی انتخاب لڑا تو تحریک انصاف کے لیے ایوان صدر تک رسائی نہ صرف یہ کہ بہت مشکل بلکہ ناممکن بھی ہوسکتی ہے ۔ اس وقت اپوزیشن کو اتحاد کو 2 ووٹ کی برتی ہے ۔ صدارتی الیکٹورل کالج قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہے ۔ قومی اسمبلی کے 342، سینیٹ کے 104 اور بلوچستان اسمبلی کے 65 ارکان کا ایک ایک ووٹ ہے ۔ دیگر تین صوبائی اسمبلیوں میں ہر ایک کے پاس بلوچستان کے مساوی یعنی 65 ووٹ ہیں۔ صدارتی الیکٹورل کالج میں 706 ووٹ ہیں۔ 24 ووٹوں کے برابر نشستیں خالی ہیں۔ یوں 682 ووٹ بنتے ہیں۔ کامیابی کے لیے 354 ووٹ ضروری ہیں۔ صدارتی الیکٹورل کالج کے مطابق پنجاب میں 5.7، سندھ میں 2.58 اور خیبر پختونخوا میں 1.9 ارکان کا ایک ووٹ ہے ۔ اس وقت قومی اسمبلی کی 11، سینیٹ کی ایک، پنجاب اسمبلی کی 13، سندھ اسمبلی کی 2، خیبر پختونخوا اسمبلی کی 9 اور بلوچستان اسمبلی کی 2 نشستیں خالی ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کی 2نشستوں کا معاملہ عدالت میں ہے ۔ تحریک انصاف کے حامی ووٹ 340 ہیں۔ قومی اسمبلی میں 178، سینیٹ میں 30، پنجاب میں 33، سندھ میں 23، خیبر پختونخوا میں 41 اور بلوچستان میں 35 صدارتی ووٹ ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن 342 ووٹ ہیں۔ قومی اسمبلی میں 153، سینیٹ میں 73، پنجاب میں 30، سندھ میں 41، خیبر پختونخوا میں 19 اور بلوچستان میں 26 صدارتی ووٹ ہیں۔ یہ اب تک کی پوزیشن ہے ۔ آئندہ دو ہفتے بہت اہم ہیں۔ اس دوران صف بندی بھی واضح ہوجائے گی۔

FOLLOW US