Wednesday October 23, 2024

عمران خان کا وزیراعظم بننا ریحام خان کو ایک آنکھ نہ بھایا ،دھماکہ داربیان داغ ڈالا

واشنگٹن(ویب ڈیسک) نومنتخب وزیر اعظم عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے کہا ہے کہ عمران خان کی جیت میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار واضح تھا۔ریحام خان نے کہا ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت معیشت، نوجوانوں کیلیے روزگار اور سماجی و انسانی آزادیوں میں کارکردگی دکھاتی ہے تو وہ

بحیثیت سیاسی تجزیہ کار ذاتی معاملات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمران حکومت کی تعریف کریں گی تاہم ان کا کہنا تھا کہ تبدیلی کی دعووں اور حقیقی تبدیلی لانے میں بہت فرق ہوتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان قومی ہیرو بہرحال ہیں اور اگر ان کا موازنہ کوئی ٹرمپ کے ساتھ کرتا ہے تو انھیں افسوس ہوتا ہے۔ریحام خان کے بقول مریم نواز کا سیاسی مستقبل ہے اور یہ کہ انھیں اپنی کتاب پر جو آن لائن دستیاب ہے، بہت اچھا رسپانس مل رہا ہے، ایک ہزار سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہے۔امریکی نشریاتی ادارے کے ساتھ فیس بک لائیو میں ریحام خان نے کہا کہ تبدیلی آ گئی مگر اس کو اصل تبدیلی میں ڈھالنا ابھی باقی ہے، تبدیلی تو آگئی لیکنیہ تبدیلی اچھی بھی ہو سکتی ہے، بری بھی اور عارضی بھی، تبدیلی تو یہ بھی آ گئی کہ ایک ایم پی اے ایک عام شہری پر تھپڑوںکی بارش کر رہا ہے۔ریحام خان کے مطابق عمران خان کی جیت میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار واضح تھا، اگرمریخ سے فرشتے ووٹ دینے نہ آتے تو بھلا مولانا فضل الرحمن کیسے ہارتے، بلوچستان سے پی ٹی آئی کیسے سیٹ جیت سکتی۔دوسری جانب صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف

نے ایک بار پھر 25 جولائی کو ہونے والے الیکشن کے کو مسترد کرتے ہوئے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔شہباز شریف کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ کیسا الیکشن ہے کہ ہم 2018 کے الیکشن کو یوم آزادی کے جشن میں شریک نہ کر سکے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسا الیکشن تھا جو ای سی پی کی ذمہ داری تھی مگر وہ مکمل طور پر ناکام رہا، چترال سے لیکر کراچی تک رات 11 بج کر 47 منٹ پر آر ٹی ایس مشینیں زبردستی بند کر دی گئیں۔ان کا کہنا تھا یہ کیسے الیکشن تھے کہ پورے پاکستان میں ہر حلقے سے پولنگ ایجنٹس کو نکال کر گنتی کی گئی، بہت سے ایسے حلقے تھے جہاں پر مسترد ووٹوں کی تعداد جیت سے زیادہ تھی، فارم 45 کی جگہ پولنگ ایجنٹس کو کچی پرچیاں تھما دی گئیں۔انہوں نے کہا کہ یہ کیسا الیکشن تھا کہ تین دن تک الیکشن کے نتائج نہیں آئے، جہاں میڈیا کو پولنگ اسٹیشنز میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، دیہاتوں کے نتائج پہلے آئے اور شہروں کے نتائج 48 گھنٹے بعد بھی نہ آئے، ووٹنگ کی رفتار کو دانستہ طور پر سست کیا گیا۔

FOLLOW US