Friday October 25, 2024

17 سال قبل ایک عربی اخبار میں عمران خان کے حوالے سے ایک شاندار مضمون شائع ہوا تھا ؟ اس مضمون کا اردو ترجمہ اس خبر میں ملاحظہ کیجیے

لاہور(ویب ڈیسک)یہ مضمون تقریباً 17سال پہلے 14جنوری 2002ء کو ایک سعودی اخبارعرب نیوز (Arab News) میں شائع ہوا تھا۔ حال ہی میں ایک دوست نے میری توجہ اس طرف دلائی تو میں نے مناسب سمجھا کہ اس کا اردو ترجمہ (جو دو اقساط پر مشتمل ہے) نذرِ قارئین کروں۔ میری طرح شائد اور کئی قارئین نے بھی

نامور تجزیہ نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔اس کو نہیں پڑھا ہوگا۔2002ء سے چار برس پہلے عمران خان اپنی سیاسی جدوجہد شروع کر چکے تھے۔ ان کے یہ خیالات نئے نہیں۔ ایک کرکٹ ہیرو کس طرح مغربی معاشرتی اور مذہبی قدروں سے بیزار ہوا اور کس طرح دینِ اسلام کی دائمی اقدار کی آغوش میں پناہ لی، یہ ایک نہایت چشم کشا اور دلآویز واقعہ ہے۔ ہمیں عمران خان کی استقامت اور ان کے عزمِ صمیم کی داد دینی چاہیے جس نے آج ان کو اس مقامِ بلند تک پہنچایا ۔میری نسل اس دور میں پروان چڑھی جب استعمار کا خمار عروج پر تھا۔ ہماری پرانی نسل بندِ غلامی میں اسیر اور برطانوی آقاؤں کے سامنے ایک مہیب احساسِ محرومی کا شکار رہی تھی۔ میں نے جس سکول کو جوائن کیا وہ پاکستان کے بہت سے جدید ترین سکولوں میں سے ایک تھا۔ یہ سکول، باوجود اس کے کہ آزادی کی نعمت سے سرفراز ہو چکے تھے ،پھر بھی برٹش دور کے پبلک سکولوں سے نکلنے والوں کی طرح کے نوجوانوں کی کھیپ پروڈیوس کر رہے تھے، آزاد پاکستانیوں کی نہیں۔میں نے شیکسپیئر کو پڑھا تو اچھا لگا لیکن علامہ اقبال کو نہ پڑھا

جو پاکستان کے قومی شاعر تھے۔ میرا شمار پاکستان کی اشرافیہ میں ہوتا تھا کیونکہ میں اچھی انگریزی بول لیتا تھا اور میرا پہناوا بھی مغربی تھا۔باوجود اس کے کہ میں کبھی کبھار سکول کی بعض تقریبات میں ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا لیا کرتا تھا، لیکن دل ہی دل میں سمجھتا تھا کہ میری ثقافت پس ماندہ ہے اور میرا مذہب دقیانوسی قسم کے خیالات کا مرقع ہے۔ ہمارے گروپ میں جو لڑکا مذہب کی بات کیا کرتا تھا، نماز روزے کی پابندی کرتا تھا یا داڑھی رکھ لیتا تھا تو ہم اسے فوراً ’’ملاّں ‘‘ کہنا شروع کر دیتے تھے۔مغربی میڈیا کی زبردست قوت کے زیرِ اثر ہمارے ہیرو یا تو مغربی فلموں کے ہیرو ہوتے تھے یا پاپ سنگرز تھے۔ جب میں اپنے اس ماضی اور اس پس منظر کے ساتھ آکسفورڈ میں گیا تو صورتِ حال وہی تھی جس کا ذکر کر رہا ہوں۔ آکسفورڈ میں نہ صرف اسلام بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کو ’’تاریخ کی ایک خطا‘‘ (Anchronism)گردانا جاتا تھا۔سائنس، مذہب کی جگہ لے چکی تھی اور جو بات منطق کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتی تھی اس کا عدم اور وجود برابر ہو چکا تھا۔ تمام کے تمام مابعدالطبیعاتی علوم کو فلموں کا موضوع بنایا جا چکا تھا۔

ڈارون کی طرح کے فلاسفروں نے انسانی ارتقاء کی نیم پختہ تھیوری کو متعارف کروا کر انسان کی تخلیق ہی کی نفی کر دی تھی اور اسی طرح مذہب کو بھی صرف ایک مقدس صحیفہ سمجھ کر اس کی محض تلاوت اور اس کا احترام کرنے کی حدودں تک محدود کر دیا تھا۔اس کے علاوہ یورپ کی تاریخ نے مذہب کے ساتھ ایک خوفناک تجربے کا کھیل کھیلا اور عیسائی پادریوں نے دورِ تحقیق و تفتیش (Inquistion) میں عوام پر جو مظالم ڈھائے تھے انہوں نے مغرب کے اذہان پر ایک گہرا اور طاقتور اثر ڈالا۔اِنکوزیشن(Inquisition) چند مذہبی اداروں کا ایک گروپ تھا جو12ویں صدی عیسوی میں فرانس میں تشکیل ہوا۔ قرون وسطیٰ اور بالخصوص تحریکِ احیائے علوم کے دوران اس کی نشوونما ہوئی اور یہ یورپ کے دوسرے ممالک میں پھیل گیا۔ خاص طور پر سپین اور پرتگال میں اس کو خوب خوب فروغ ملا۔ اندلسی خلفاء کو جب شکست ہوئی تو سپین کے شاہ فرڈی نینڈ اور اس کی ملکہ ازابیلا کے دور میں مسلمانوں کو یا تو عیسائی بنا لیا گیا یا ان کو وہاں سے نکل جانے پر مجبور کردیا گیا۔اس گروپ کو ’’ادارۂ تحقیق و تفتیش‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس ادارے نے لاکھوں مسلمانوں کو جو عیسائی ہو چکے تھے، مرتد قرار دے کر زندہ جلا ڈالا۔

ان مظالم کے آثار اور ایذا رسانی کے اوزار آج بھی قرطبہ، اشبیلیہ (سپین) اور لزبن(پرتگال) کے عجائب گھروں میں دیکھے جا سکتے ہیں اور انہی کی طرف عمران خان نے اشارہ کیا ہے۔ مترجم اگر کسی نے یہ جاننا ہو کہ مغرب، سیکولرازم پر کیوں اتنا یقین رکھتا ہے تو اسے سپین کے شہر قرطبہ کا ایک چکر لگانا چاہیے اور اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہیے کہ سپین کے اس عہدِ تفتیش و تحقیق (Inquisition) میں مسلمانوں کو ٹارچر کرنے کے کیا کیا بھیانک طریقے اور ہتھیار بنائے گئے تھے۔ اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہاں پاپائت (Clergy) نے سائنس دانوں پر کفر کے فتوے لگا کر کس کس طرح کے انوکھے اندازِ ستم ایجاد کئے تھے۔ ان شواہد کو دیکھ دیکھ کر یورپی اقوام نے باور کر لیا تھا کہ تمام مذاہب، رجعت پسند اور جدید سائنسی علوم کے مخالف ہوتے ہیں۔تاہم سب سے بڑی وجہ جس نے مجھ جیسے لوگوں کو مذہب سے دور کر دیا وہ یہ تھی کہ اسلام کے داعی ایک مخصوص برانڈ (Selective)کے پیرو کار تھے۔ وہ جن امور کی تبلیغ کرتے تھے اور پھر جن پر عمل کرتے تھے ان کے درمیان بہت فرق اور فاصلہ تھا۔ علاوہ ازیں بجائے اس کے کہ

وہ لوگ مذہب کے باطن میں موجود فکر و عمل کی تشریح و تعبیر کرتے انہوں نے نے ظواہر پر زیادہ زور دیئے رکھا۔میرے خیال میں انسانوں اور جانوروں میں فرق ہے۔۔۔ دونوں بہت مختلف طرح کی مخلوقات ہیں۔ جانوروں کو جس طرح بار بار دہرائی کرکے کوئی چیز سکھالی جاتی ہے تواس کے علی الرغم انسانوں کو اس کا شعور دینے کے لئے ذہنی طور پر باور کروانا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن بار بار استدلال اور تدبر پر زور دیتا ہے۔۔۔۔ اور مذہب کی مکروہ ترین شکل وہ ہے جو بعض گروپوں اور افراد کی طرف سے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے استعمال کی جاتی ہے!اندریں حالات یہ ایک معجزہ ہی تھا کہ میں ملحد ہونے سے بچ گیا۔ اس کی وجہ صرف ایک تھی۔ اور وہ میری والدہ کا وہ مذہبی اثر تھا جو بچپن ہی سے مجھ پر غالب رہا۔لیکن یہ اثر بھی میرے اعتقادات کے سبب نہ تھا بلکہ میری اپنی ماں سے وہ محبت تھی جس نے مجھے مسلمان بنائے رکھا اور میں مسلمانی پر قائم رہا۔تاہم میرا اسلام ایک خاص طرح کی چنیدہ (Selective) کوشش تھی۔۔۔۔ میں نے اسلام کا وہی حصہ قبول کیا اور اسی پر ایمان لایا جو مجھ پر موزوں آتا تھا۔

میں صرف عیدبقر عید کی نمازیں پڑھ لیا کرتا تھا اور کبھی کبھا جمعہ کی نماز بھی پڑھ لیتا تھا۔ ایسا تب ہوتا جب میرے والد جمعہ پڑھنے مسجد میں جاتے اور مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔قصہ مختصر یہ کہ میں ایک ’’پکا بھورا انگریز‘‘ بن رہا تھا۔۔۔ یعنی پورا پورا ’’براؤن صاحب‘‘۔۔۔۔ میں اس کے لئے کوالیفائی جو کرتا تھا!۔۔۔ میرے سکول اور پھر میری یونیورسٹی کی تعلیم، اور انگریز سوسائٹی میں قبولیت کا مقامِ بلند حاصل کرنا وغیرہ ایسے اعلیٰ درجات تھے جن کے حصول کے لئے ہمارے ’’بھورے انگریز‘‘ اپنی جانیں تک قربان کر دیتے ہیں۔۔۔ تو پھر ایسا کیا ہوا کہ میں نے براؤن صاحب بہادر پر تین صرف بھیجے اور اس کی بجائے ایک ’’دیسی مسلمان ‘‘ بن گیا؟لیکن یہ تبدیلی مجھ میں راتوں رات نہیں آئی۔ سب سے پہلی وجہ اس تبدیلی کی یہ تھی کہ میرا وہ احساسِ کمتری جو میری نسل کو ورثے میں ملا تھا وہ رفتہ رفتہ اس وقت غائب ہوتا چلا گیا جب میں ایک ورلڈ کلاس اتھلیٹ بن گیا۔۔۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میں دو مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے سنگم پر کھڑا تھا اور دونوں کے فوائد اور نقصانات بچشمِ خود دیکھ سکتا تھا۔مغربی معاشرے میں ادارے مضبوط تھے جبکہ ہمارے ہاں دم توڑ رہے تھے۔

تاہم ایک علاقہ ایسا بھی تھا جس میں ہم مغرب سے بہتر اور ارفع تر تھے اور اب تک ہیں۔ اور یہ پہلو ہماری ’’فیملی لائف‘‘ کا پہلو تھا۔ میں نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ خاندانی بندھنوں کا یہ نقصان، مغرب کا سب بڑا نقصان ہے۔ پاپائیت اور ملائیت کے مظالم کے خوف سے نجات حاصل کرنے کے لئے مغرب نے اپنی زندگی سے خدا اور مذہب دونوں کو نکال باہر کر دیا تھا!سائنس خواہ کتنی بھی ترقی کرلے اور کتنے بھی سوالوں کے جواب لے آئے، وہ دو سوالوں کے جواب نہیں لا سکتی۔۔۔ ایک یہ کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟۔۔۔ اور دوسرا یہ کہ جب ہم مر جاتے ہیں تو کہاں چلے جاتے ہیں؟میں نے محسوس کیا کہ یہ خلا دو چیزوں نے پیدا کیا۔ ایک کو مادہ پرستی (Materialistic) اور دوسری کو لذت پرستی (Hedonistic) کا نام دیا جاتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر یہی مقصودِ زندگی ہے تو پھر انسان کو وقت کی قدر کرنی چاہیے اور اسے ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہیے۔ لیکن اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے پیسہ درکار تھا ۔تاہم اس کلچر میں بعض نفسیاتی قباحتیں ایسی بھی تھیں جو کسی بھی بنی نوعِ انسان میں ہو سکتی ہیں۔۔۔

یعنی اس کلچر میں جسم اور روح کے درمیان ایک عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے!نتیجتاً، امریکہ کو دیکھئے۔ اس نے حیرت انگیز مادی ترقی کی ہے، اپنے شہریوں کو طرح طرح کے حقوق دے رکھے ہیں۔لیکن 60فیصد امریکی آبادی نفسیاتی امراض کے ڈاکٹروں کے پاس جانے پر مجبور ہے اور باایں ہمہ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ جدید نفسیاتی علوم نے انسانی روح کے بارے میں کوئی ریسرچ نہیں کی۔ سوئٹزرلینڈ اور سویڈن دو ایسے ممالک ہیں جو اپنے شہریوں کو سب سے زیادہ فلاحی سہولتیں دے رہے ہیں لیکن ان دونوں ملکوں میں خودکشی کی شرح دنیا بھر سے زیادہ ہے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ انسان محض مادی سہولتوں اور فوائد پر مطمئن نہیں ہوتا، اسے کسی ’’اور‘‘ شے کی ضرورت بھی ہوتی ہے!دنیا بھر میں اخلاقیات کی جڑیں تو مذہب کے اندر سے پھوٹتی ہیں لیکن عصرِ حاضر میں بداخلاقی کے تدریحی دور کی ابتداء 1970ء کے عشرے سے ہوئی اور اس بداخلاقی کا براہِ راست اثر فیملی لائف پر پڑا۔ برطانیہ ہی کو دیکھئے۔ وہاں طلاق کی شرح 60فی صد ہے اور 35فیصد مائیں ایسی ہیں جواکیلی مائیں کہلاتی ہیں(شوہر کے بغیر) ۔۔۔ تقریباً ہر مغربی معاشرے میں جرائم کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ

نسل پرستی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ سائنس ہمیشہ اس بات کا ثبوت فراہم کرنے میں لگی رہتی ہے کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ (تازہ ترین سروے میں بتایا گیا ہے کہ سیاہ فام انسانوں کی نسل، جینیانی طور پر، سفید فام انسانوں سے کم ذہین ہے۔)۔۔۔ اس کے مقابل صرف مذہب ہی ہے جو یہ بتاتا اور تبلیغ کرتا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور کسی گورے کو کسی کالے پر فوقیت نہیں۔۔۔اندازہ لگایا گیا تھا کہ 1991ء سے لے کر 1997ء تک کے چھ برسوں میں پانچ لاکھ بیس ہزار(520,000) لوگ اپنے ملکوں سے ترکِ وطن کرکے یورپ پہنچے۔ ان پر وہاں نسل پرستوں نے بار بار حملے کئے جن میں بالخصوص برطانیہ، فرانس اور جرمنی پیش پیش تھے۔ اور دوسری طرف یہ دیکھئے کہ افغانستان کی جنگ کے دوران ہمارے ہاں افغانستان سے 40لاکھ سے زیادہ ریفیوجی آئے اور باوجوداس کے کہ ان میں بیشتر لوگ مفلس اور غریب تھے ،پھر بھی یہاں نسل پرستی وغیرہ سے جڑی کوئی کشیدگی دیکھنے میں نہ آئی۔پھر 1980ء کی دہائی میں یکے بعد دیگرے چند واقعات ایسے رونما ہوئے جنہوں نے مجھے اپنے اللہ کی طرف راغب کیا۔۔۔۔قران فرماتا ہے:’’ لوگوں کے سمجھنے کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔۔۔ میرے لئے ان میں ایک نشانی ’’کرکٹ‘‘ بھی تھی۔ میں چونکہ اس گیم کا ایک طالب علم تھا اس لئے جوں جوں اس گیم کو سمجھتا گیا توں توں مجھ پر منکشف ہوتا چلا گیا کہ جن کو میں محض ’اتفاقات‘ سمجھتا تھا وہ دراصل اللہ کریم کی منشا اور رضا تھی جووقت کے ساتھ ساتھ زیادہ واضح ہوکر سامنے آتی چلی گئی۔ جب تک میں نے سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ نہ پڑھی، مجھ پر اسلام کی تعلیمات واضح اور ڈویلپ نہ ہوسکیں۔

FOLLOW US