Friday October 25, 2024

شکستوں کی ہیٹ ٹرک کرنے والی یاسمین راشد کو نوازنا تحریک انصاف نے اپنا فرض کیوں سمجھا اور انہیں اب کیا عہدہ دیا جانیوالا ہے ؟ نامور صحافی نےاندر کی خبر دے دی

لاہور(ویب ڈیسک)ڈاکٹر یاسمین راشد کو بالآخر پنجاب اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشست پر ’’اکاموڈیٹ‘‘ کرنا پڑا، وہ تین بار قومی اسمبلی میں پہنچنے کی سرتوڑ کوشش کرکے ناکام ہوگئیں تو انہیں پنجاب اسمبلی کا رکن بنا دیا گیا، ان کا نام تو وزیراعلیٰ کے لئے بھی لیا جا رہا تھا، لیکن اب شاید وہ نامور کالم نگار قدرت اللہ چودھری اپنے ایک کالم میں لکھتے

 

ہیں۔۔۔۔۔اس دوڑ سے نکل چکیں، تاہم یہ امکان ضرور موجود ہے کہ وہ صوبائی وزیر بنا دی جائیں۔ یہ سیاست کا کارخانہ بھی عجیب ہے، کوششیں کچھ اور ہوتی ہیں اور کامیابی کسی اور ذریعے سے مل جاتی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے گزشتہ پانچ سال میں تین الیکشن لڑے اور سچی بات ہے پوری قوت کے ساتھ اور مردانہ وار لڑے، لیکن کامیابی ان کی قسمت میں نہ تھی۔ تینوں بار وہ ہزاروں ووٹ لینے کے باوجود ناکام ٹھہریں۔ شکست کی وجوہ تو گوناگوں ہوسکتی ہیں، لیکن جو حلقہ انہوں نے انتخاب لڑنے کے لئے منتخب کیا، وہ حقیقتاً مشکل حلقہ تھا۔ پہلی بار انہوں نے 2013ء کے عام انتخابات میں حلقہ این اے 120 سے مسلم لیگ (ن) کے اس وقت کے صدر نواز شریف کا مقابلہ کیا، تو وہ 40 ہزار ووٹوں سے ہار گئیں، بظاہر اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ حلقہ مسلم لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور میاں نواز شریف اس حلقے سے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس حلقے کا انتخاب کرکے اپنے لئے ایک مشکل ہدف مقرر کرلیا تھا اور بظاہر ان کی کامیابی مشکل نظر آرہی تھی، اس کے باوجود وہ اور ان کی جماعت یہ دعویٰ کرتی رہی کہ وہ نواز شریف کو ہرانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

 

اس کا دوسرے الفاظ میں مطلب یہ تھا کہ وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے کو ہرانے جا رہی تھیں، درآنحالیکہ انہیں اس سے پہلے قومی اسمبلی کا کوئی الیکشن لڑنے کا تجربہ تھا نہ وہ سیاست میں اتنی زیادہ سرگرم تھیں محکمہ صحت کی ملازمت کے زمانے میں وہ ڈاکٹروں کی تنظیم کی طویل عرصے تک عہدیدار ضرور رہیں، لیکن ایسی پروفیشنل تنظیموں کے الیکشن کا عام انتخابات سے کوئی موازنہ سرے سے کیا ہی نہیں جاسکتا، زندگی کے مختلف شعبوں کے متعلق جو پیشہ وارانہ تنظیمیں یا ٹریڈ یونینیں اس وقت کام کر رہی ہیں، ان کے بعض عہدیدار سال ہا سال تک ان کاانتخاب جیتتے رہے ہیں، لیکن وہ اگر کسی وقت عام انتخابات لڑنے لگیں تو انہیں شکست ہو جاتی ہے۔ بڑے بڑے مزدور رہنما جو پورے برصغیر میں اپنی مزدور جدوجہد کی وجہ سے ایک مقام و مرتبہ رکھتے تھے، جب انہوں نے عام انتخابات میں حصہ لیا تو ناکام رہے۔ مزدور رہنما مرزا محمد ابراہیم اور بشیر احمد بختیار کی مثالیں دی جاسکتی ہیں، جو اپنے وقت کے بڑے مزدور رہنما تھے اور جدوجہد کی ایک تاریخ رکھتے تھے۔ ان کو عزت و احترام کی نظر سے بھی دیکھا جاتا تھا، لیکن وہ کوئی انتخاب نہ جیت سکے، بعض دوسری معروف شخصیات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جو اپنے فن کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں، انہیں سننے والے بھی بہت ہیں، لیکن ووٹروں نے انہیں منتخب نہیں کیا، اس کی تازہ مثال ابرار الحق ہیں، جن کے نغمے تحریک انصاف کے جلسوں میں گونجتے تھے، لیکن وہ الیکشن ہار گئے۔ اس سے بھی بہتر مثال جواد احمد کی دی جاسکتی ہے، جنہوں نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ کوئی برسرروزگار ہو یا بے روزگار ہم اس کی ماہانہ آمدنی 50 ہزار روپے کر دیں گے، لیکن ان کی برابری پارٹی کے اس دعوے کو ووٹروں نے یا تو شاعرانہ یا

 

فنکارانہ تعلّی سمجھا یا پھر سوچا کہ یہ ایسا خواب ہے جس کی تعبیر شاید اس وقت بھی ممکن نہ ہو جب پاکستان میں کویت سے زیادہ تیل نکل آئے، اس لئے کہ جن ملکوں میں پہلے سے تیل نکلا ہوا ہے وہاں بھی ایسا کوئی تصور موجود نہیں۔خیر ہم بات ڈاکٹر یاسمین راشد کی کر رہے تھے جو اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کی بنیاد پر میاں نواز شریف کو ہرانے کی خواہش لے کر انتخابی میدان میں اتری تھیں، مگر ہار گئیں۔ جولائی 2017ء میں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا تو یہ نشست خالی ہوگئی، جس پر ستمبر 2017ء میں ضمنی انتخاب ہوئے، ڈاکٹر یاسمین راشد دوسری مرتبہ بھی میدان میں اتریں، اب کی بار ان کا مقابلہ بیگم کلثوم نواز سے تھا، جو کاغذات نامزدگی داخل کرانے کے بعد بیمار ہوگئیں اور انہیں علاج کے لئے لندن لے جایا گیا۔ انہوں نے اس حلقے سے ضمنی انتخاب ایسے عالم میں جیتا جب وہ ایک دن کے لئے بھی انتخابی مہم کے لئے نہیں گئیں۔ اس انتخاب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں 40 سے زیادہ امیدوار تھے، جن میں ایسے بھی تھے جو چند ووٹ ہی لے سکے، جماعت اسلامی کے امیدوار کو پانچ سو ووٹ ملے تو پیپلز پارٹی کے حصے میں ایک ہزار سے کم ووٹ آئے۔ البتہ یہاں دو نئی جماعتوں کے امیدواروں نے زیادہ ووٹ لے لئے۔ ضمانت پھر بھی کسی کی نہ بچی ڈاکٹر یاسمین راشددوسری مرتبہ 15 ہزار ووٹوں سے ہاریں تو ’’حساب دانوں‘‘ نے یہ حساب لگایا کہ پہلا انتخاب وہ 40 ہزار سے ہاری تھیں، دوسرا 15 ہزار سے، اس لئے شاید تیسرے انتخاب میں کامیابی ان کے قدم چوم لے۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب تحریک انصاف کا ستارہ عروج پر ہے، لیکن اس بار ڈاکٹر یاسمین راشد ایک ایسے امیدوار سے ہار گئیں، جو اپنا حلقہ تبدیل ہونے کی وجہ سے خود بجھا بجھا سا تھا۔ یوں ڈاکٹر صاحبہ نے شکستوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کی تو پارٹی نے سوچا اب یہ خاتون شاید جنرل نشستوں پر کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ اس لئے اسے قومی اسمبلی نہیں تو پنجاب اسمبلی کے ایوان میں مخصوص نشستوں پر منتخب کرا دیا جائے۔ اب جس خاتون کی اتنی شاندار جدوجہد ہے، وزارت پر تو اس کا حق بنتا ہے۔ دیکھیں ان کے سر پر وزارت کا ہما بیٹھتا ہے یا اڑ جاتا ہے۔

FOLLOW US