Saturday October 26, 2024

اگر عمران خان کا 100 دنوں کا پلان کامیاب ہوا تو میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لوں گا ۔۔۔۔۔ صف اول کے پاکستانی صحافی نے اعلان کر دیا

لاہور(ویب ڈیسک)پاکستان میں حقیقی تبدیلی تو انشاءاللہ یوم آزادی پہ حکومت سازی اور ممبران پارلیمان کے حلف اُٹھانے کے بعد قوم کو دیکھنے کو ضرور ملے گی، چاہے زیادہ ہو، چاہے کم، تاہم اس دفعہ انتخابات کے موقعے پر جو تبدیلی آئی، اس کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہے ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کہتے ہیں؎

نامور کالم نگارنواز خان میرانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔الیکشن کمشنر تین دن مسلسل سوتے رہے، لیکن ان کی اپنی عدالت اور ماتحت عدالتوں میں اگر سعد رفیق یا کوئی اور امیدوار دوبارہ گنتی کے لیے درخواست دیتا ہے ، تو ایک حلقے کی گنتی کرادی جاتی ہے ، اور ایک کی دوبارہ گنتی کرانے کی درخواست مسترد کردی جاتی ہے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں سعد رفیق کے وکیل نے کہا کہ عمران خان نے اپنی فتح مندی کی تقریر میں خود کہا ہے کہ مخالفین جو حلقہ کھلوانا چاہیں گے، ہم دوبارہ کھولنے کے لیے تیار ہیں، جس پر جناب ثاقب نثار صاحب نے صرف جج نہیں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس ہونے کے باوجود کہا کہ یہ عمران خان کا ”سیاسی بیان“ تھا۔ اب اگر اس بیان کو سیاسی تناظر میں دیکھا جائے، کیونکہ اب تک تو ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ مصنف کے منہ سے نکلا ہوا ہرلفظ قانون بن جاتا ہے ۔ مگر ہم سلام کرتے ہیں غلام احمد بلور کو ان کے اس بیان دینے پر کہ میں اپنی شکست تسلیم کرتا ہوں، غلام احمد بلور سابق وزیر ریلوے، جواپنے کئی رشتہ دار مختصر عرصے میں شہید کراچکے ہیں، اور کیﺅں کے لاشے اُٹھا کر اپنے ہاتھوں سے دفنا چکے ہیں، اور اب ان کے بھتیجے کو خاک وخون میں نہلا دیا گیا تھا

اس کے بعد اسفند یار ولی کے اکثر بیانات ، حقائق پہ مبنی ہوتے ہیں، اور وہ روایتی سیاسی بیان داغنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس حوالے سے افتخار حسین صاحب کا نام نہ لینا موضوع کی مقصدیت کھودینے کے مترادف ہوگا، انہوں نے اپنے دورحکمرانی میں اپنے اکلوتے جواں سال بیٹے کے گوروکفن کا بندوبست خود اس عمرپیرانہ میں کیا، مگر انحراف نصب العین کے مرتکب نہیں ہوئے واضح رہے کہ الیکشن سے پہلے انتخابی جلسے میں، اے این پی کے ہارون بلور کو خودکش بمبار نے شہید کردیا تھا۔متذکرہ بالا سیاستدانوں کے خیالات ونظریات باچا خان عرف سرحدی گاندھی سے سوائے ان کی مختصر پارٹی کے ارکان کے، اور کوئی، کبھی پاکستانی متفق نہیں ہوا، مگر ہم تو داددے رہے ہیں، ان کی ثابت قدمی ، استقامت نظریات وثبات کی۔ زمینی حقیقت کا ادراک کرنا، اس لیے میں ضروری سمجھتا ہوں، کہ اپوزیشن خواہ کچھ بھی کرے، خواہ وہ یوم آزادی کو یوم احتجاج منالے، یا ممبران پارلیمنٹ حلف اٹھا لیں، یا انکار کردیں، پاکستان میں دوبارہ انتخاب کرانا بالکل ناممکن ہے اور سچ تو یہ بھی ہے کہ چونکہ ملک کے ادارے بشمول ادارہ احتساب ، جوکہ عمران خان کا زرہ بکتر اور ڈھال ہے ، کسی صورت بھی اپنے تربیت یافتہ، کھلاڑی کو آﺅٹ نہیں ہونے دے گا۔

1966ءسے دوربے نظیر وفاروق لغاری مرحوم سے لے کر اب تک بائیس سال بنتے ہیں، اور یہ ملکوں کی تاریخ، اور قوموں کی تقدیر بدلنے کے لیے مختصر عرصہ نہیں ہے ، مگر اس دوران گزرنے والے لمحات، اور واقعات سے حکومتیں بے خبر کیسے رہیں؟ شاید اسی لیے کہ اسٹیبلشمنٹ ، حکومت وقت کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے ساتھ تھی، جوان کے خیال کے مطابق پاکستان کی تقدیر بدلنے اور ان کی تدبیر کے عین مطابق ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کی تشریح، اگر نہ صحافی کرسکے، اور نہ ہی سیاستدان، تو پھر کسی کو کیا ضرورت ہے ، صاف وشفاف انتخابات پہ دھول ڈالنے کی ؟ مگر مجھے اتنا ضرور پتہ ہے ، کہ ایک صاحب رائے نے واضح رہے ”صائب رائے“ نہیں پی ٹی اے کی ”سنہری روز روشن“ کی طرح عیاں جیت، پہ اور عمران خان کی تقریر پہ، کسی نے جن کی وجہ شہرت پہلے لوگوں سے منہ پھیر کر دوسری طرف دیکھ کر جواب دینے کی تھی، اللہ اللہ کرکے اب انہوں نے سامنے دیکھنا شروع کردیا ہے ، وہ یہ کہہ رہے تھے کہ میں عمران کی رگ رگ سے واقف ہوں، مجھے پتہ ہے کہ وہ کیا کرسکتا ہے ،اور کیا نہیں کرسکتا۔

ایک دفعہ وہ جناب سجاد میر صاحب کے ساتھ گھر تشریف لائے ،تو میں نے ان سے یہ شکوہ کیا، کہ آپ کے سامنے نہ دیکھنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں، چونکہ ان کا تعلق شہر اقتدار سے ہے ، اور لاہور ان کا آنا، کبھی کبھار ہوتا ہے ، میں ان کے بتائے ہوئے ایڈریس پہ پہنچا، جوکہ غالباً فاطمہ جناح روڈ پہ نوائے وقت کے دفتر سے پہلے واقع ہے ، کافی تگ ودو کے بعد جب میں مطلوبہ جگہ پہ پہنچا تو پتہ کرنے پر زبان خلق نقارہ خدااست ، پہ یقین کرنا پڑا، کہ لوگوں نے بتایا کہ اچھا وہ صاحب جو …. کے بندے ہیں، وہ تو اپنی مرضی سے کبھی دن اور کبھی رات کو آتے ہیں، اور پھر جائیداد کی خریدوفروخت کرنے والا، ہرچینل کی ضرورت بن گیا، اتالیق عمران ، عمران خان کو لے کر، ایم اے او کالج کے انگریزی کے مستند پروفیسر جنہوں نے اچانک استعفیٰ دے کر جہلم کے قریب برتنوں کی دکان کھول لی تھی، ان کے پاس بھی تربیت نفس کے لیے، یا پھر حرمستقبل کی ”سن گن“ کے لیے عمران خان کو ساتھ لے گئے، اور ”جوگی جہلمی“ کی خبر بریکنگ نیوز اس لیے نہ بن سکی کہ

اس وقت ابھی ”نیونیوز“ بنا تھا، اور نہ ہی اخبار ”نئی بات“ کا اجراءہوا تھا۔ خیراب چوکوں، اور چوراہوں، اور جھونپڑیوں اور چوباروں میں ہونے والی باتوں پہ تبصرہ آرائی اور مغز کھپائی پہ ہمیں کیا ضرورت ہے بس ہمیں تو فکر ہے ، کہ آپ نے ”کھکھر“ میں کیوں ہاتھ ڈال دیا ہے ، بلوچستان کے بعد گلگت کی صورت حال اس کا واضح ثبوت ہے ، اور پاکستان کی امداد میں فوراً کمی کس بات کا ثبوت ہے ؟سی پیک کے دشمن یہودوہنود نے ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کرایا، نواز شریف کی حکومت کو گرایا، وہ آپ کو بھی زک پہنچانے کی ہرممکن کوشش کریں گے، اس حوالے سے بیک وقت، موساد، را، سی آئی اے، سے مقابلہ ہماری آزمائش شدہ، اور قابل فخر آئی ایس آئی کا ہے ، میں جنرل شجاع پاشا کو تو نہیں جانتا، مگر ان کے نام سے اس وقت سے آشنا ہوں جب بہت کم لوگ ان سے آشنا تھے، کیونکہ میں ان کے مرشد کا اس وقت سے دوست ہوں، جب انہوں نے ابھی فوج میں ملازمت اختیار کی تھی۔ ان کا حلقہ احباب ، اندرون ملک تک محدود نہیں، بلکہ بیرون ملک بھی ہے ۔ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ جنرل شجاع پاشا ملک سے باہر ملازمت نہیں کرتے، جبکہ جنرل راحیل شریف ، سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں، سعودی عرب میاں نوازشریف سے اس لیے خفا ہے ، کہ انہوں نے یمن کی جنگ میں پاک فوج کو جھونکنے سے انکار کردیا تھا، اور کہا تھا کہ فوج صرف حرمین شریفین کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے اور یہی بات جنرل ضیاءالحق مرحوم نے کی تھی۔ ان حقائق کے تناظر میں، میں یہی سمجھتا ہوں، کہ عمران خان کو خارجہ پالیسی سے ضرور محتاط رہنا چاہیے، داخلہ پالیسی کے بارے میں تو سینئر صحافی اسد اللہ غالب نے عبوری حکومت کا پول کھول کر رکھ دیا ہے ، کہ عبوری حکومت کے ہوتے ہوئے، عمران خان کو کوئی مجبوری نہیں، اس لیے میری گزارش ہے کہ عوام کی خیر ہے ، مگر اپنا ضرور خیال رکھیے گا، جہاں تک میرا تعلق ہے ، میں سودنوں کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہو جاﺅں گا انشاءاللہ ، بس چند دنوں کی تو بات ہے۔

FOLLOW US