Monday October 28, 2024

قائد اعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور اب عمران خان ۔۔۔۔۔ پاکستانی خوش نصیب ہیں کہ انہیں ایسے حالات میں بھی ایک مثالی حکمران مل گیا ، اب چند سال کے اندر اندر پاکستان کے حالات کیا ہونگے ؟ ڈاکٹر اجمل نیازی نے منظر کشی کر دی

لاہور(ویب ڈیسک)عمران خاں کیا حیرت انگیز لیڈر ہے ابھی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہی نہیں ہوا اور وہ قائد ایوان ہے۔ ابھی وہ وزیراعظم نہیں بنا اور اسے وزیر اعظم سمجھ لیا گیا ہے۔ لوگوں نے ابھی سے اس کے ساتھ اپنی اُمیدیں پکی کر لی ہیں۔

میرا خیال کہ

نامور کالم نگار ڈاکٹر محمد اجمل نیازی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔ کسی ملک کے لوگوں نے اتنی اُمیدیں اپنے حکمرانوں سے نہ لگائی ہوں گی جتنی پاکستان کے لوگ اپنے حکمران سے لگاتے ہیں اور پھر مایوس ہوتے ہیں۔ اب تو مایوسیاں ہی اُن کا مقدر بن گئی ہیں۔ میری دوستی صرف ق لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ہے۔ ملاقات تو سب حکمرانوں سے ہو جاتی ہے۔ دوستی صرف سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی سے ہوئی۔ چودھری برادران کی ایک تاریخ ہے جیسے شریف برادران کی ہے۔ تاریخ میں علی برادران فیملی بہت معروف ہوئی تھی۔ مسلمانوں کے حقوق کے لئے قیام پاکستان سے پہلے ان کا بہت نام ہے۔

مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ن لیگ کیا ہے۔ قائد اعظم نے مسلم لیگ کے ساتھ ق کبھی نہ لگایا۔ چودھری صاحبان نے نواز شریف کے اس اقدام کے بعد مسلم لیگ ق بنائی اور یہ ق قائداعظم سے ہے۔ چودھری صاحبان کے ناموں میں کہیں بھی (ق) نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری مسلم لیگ قائداعظم ہے۔ ہم انہی کی بنائی ہوئی مسلم لیگ میں ہیں۔

صدر جنرل یحییٰ خان کے لئے میرے خیالات ویسے ہی تھے جو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد سب لوگوں کے ہیں

مگر جاوید چودھری کا کالم پڑھنے کے بعد حیرت ہوئی کہ وہ اتنے اچھے آدمی تھے۔ دیانتدار فرض شناس اور پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والے تھے۔ سانحۂ مشرقی پاکستان تو ایک عالمی سازش تھی۔ صدر جنرل یحییٰ کی بجائے کوئی سویلین صدر بھی ہوتا تو بھی یہ ہونا تھا۔ اس کے علاوہ بھی اب تک پاکستان کے خلاف سازشیں ختم نہیں ہو رہیں، مگر آدھا حصہ گنوانے کے باوجود لگتا ہے کہ یہ پورا ملک ہے اور اس ملک نے کوئی حیران کُن کردار ادا کرنا ہے۔ یہاں دوسرے ملکوں سے لوگ سیکھنے کے لئے آئیں گے۔

پاکستان کے لئے لوگ جو کچھ سوچ رہے ہیں اور میرے خیال میں بھی قائداعظم والا لیڈر ہے جو واقعی لیڈر ہے پہلے بھٹو اور اب عمران خان۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اب تک جس آدمی نے ملک کے لئے کچھ کیا ، ڈیم بنائے کاش وہ کالا باغ ڈیم سب سے پہلے بناتا۔ میں صدر جنرل ایوب خان کے لئے بھی لیڈر کا لفظ ہی استعمال کروں گا۔ میں سمجھتا ہوں کے صدر جنرل ضیاء الحق کو کچھ اوروقت ملتا تو وہ بھی کچھ نہ کچھ کر جاتا۔ حکمران ہی نہیں لیڈر بھی ہوتا۔ میں جمہوریت کے حق میں ہوں مگر جمہوری حکومت فلاحی حکومت بھی ہو۔

پاکستان کو جمہوری حکمرانوں نے کچھ نہ دیا حکمران لیڈر بھی ہوتا ہے اور اس لحاظ سے ایوب خان یاد آتا ہے۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو، بھٹو صاحب کو بھی صدر ایوب خان ہی سامنے لائے تھے۔ لوگ انہیں صدر ایوب ہی کہتے ہیں کوئی انہیں جنرل ایوب کے طور پر یاد نہیں کرتا۔

بھٹو صاحب کے بعد عمران خان ہے جس نے اپنے آپ کو لیڈر کے طور پر منوایا ہے، اب وہ حکمران ہونے والا ہے۔ اُمید ہے کہ وہ اپنے لیڈر ہونے کو قائم رکھے گا۔ حکمران وہی سچا جو لیڈر بھی ہو۔

منتخب لوگ اگر حکومتی پارٹی میں ہوں تو و ہ صرف حکمران ہوتے ہیں۔ مگر حکمران وہی جو لیڈر بھی ہو۔ امید ہے کہ عمران ایساہی بننے کی کوشش کرے گا۔ محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم رہے۔ عمران خان پاکستان میں صرف قائد اعظم کو اپنا لیڈر سمجھتا ہے اور ریاست مدینہ کا ذکر بہت جذبے سے کرتا ہے۔

قائداعظم نے بھی اُسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لیا جس کی پیشانی پر دنیا بھر کے قانون دانوں میں پہلا نام محمدؐ الرسول اللہ کا ہے۔ عمران خان کے لئے خاص طور پر محسن انسانیت محمدؐ الرسول اللہ اور قائدِ اعظم محمد علی جناح سے عشق ہی اصل کریڈٹ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پہلے سو دنوں میں عمران خان کی کارکردگی کو دیکھیں اور پھر کوئی بات کریں۔

میرا خیال ہے کہ عمران مغربی دنیا سے بھی بہت باخبر ہے اور اس کے دل میں قدیم حقیقتوں کا چراغ بھی جل رہا ہے۔ علامہ اقبال کا ایک شعر ہے جس کا دوسرا مصرعہ مجھے ذہن میں نہیں آ رہا تھا۔ میری یہ مشکل میرے انچارج ایڈیٹوریل سعید آسی نے آسان کر دی۔ اس شعر کو عمران بھی اپنے سامنے رکھے گا اور پاکستان ریاست مدینہ کی مثال یعنی قریۂ عشق محمدؐ بنے گا

یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

FOLLOW US