Monday October 28, 2024

تہلکہ خیز انکشاف : الیکشن کمیشن کا آر ٹی ایس سسٹم تحریک انصاف والوں کو جتوانے کے لیے خراب نہیں کیا گیا بلکہ اس کے پیچھے (ن) والے تھے ، میں عینی شاہد ہوں اور میرے پاس اس دعوے کا ثبوت ہے ۔۔۔۔نامور صحافی کے انکشافات نے ملک میں ہلچل مچا دی

لاہور(ویب ڈیسک)ہمارے قصبہ مترانوالی کا مین بازار گردونواح دو درجن سے زائد دیہات کے باسیو ںکا واحد خریداری مرکز ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں سکول کا طالب علم تھا اور ایک دن میں بازار میں کھڑا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت کریانہ فروش شیخ صاحب سے

معروف کالم نگار مطلوب وڑائچ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔تکرار کر رہی ہے، جب ذرا قریب گیا تو پتہ چلا کہ ایک پاﺅ دال کے دکاندار چھ روپے مانگ رہا تھا جبکہ دال چنا ان دنوں تین روپے پاﺅ اور بارہ روپے کلو تھی۔ اب شیخ صاحب اس عورت کو یہ فرما رہے تھے کہ باجی تین روپے دال کے اور دال والے تین روپے چھ روپے نہ ہوئے جبکہ وہ عورت روہانسی ہو کر کہہ رہی تھی کہ میں نے تو صرف ایک پاﺅ دال لی ہے جس کے تین روپے بنتے ہیں۔ قارئین! گذشتہ دنوں ہونے والے الیکشن کے حتمی نتائج آنے کے بعد نمبر گیم اور بلیم گیم کی ایسی لڑائی شروع ہوئی ہے کہ بائیس کروڑ عوام اور دس بڑی سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ تین روپے کی دال چھ روپے کی کیسے بن جاتی ہے اور گذشتہ دو ہفتوں سے میرے نمبر زیادہ اور تیرے نمبر کم کا لامتناہی سلسلہ چلا ہوا ہے جبکہ الیکشن کے دن پولنگ ٹائم ختم ہوا تو تین گھنٹے تک ہمارا میڈیا عوام کو نتائج سے باخبر کرتا رہا مگر جب آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ جانے کے بعد نتائج آنا بند ہوئے تو اس وقت تمام

تجزیہ نگاروں کی رائے کے مطابق خیال یہی تھا اور رزلٹ بورڈ بھی یہ بتا رہا تھا کہ عمران خان کی تحریک انصاف ایک سو پینتیس اور ایک سو چالیس کے درمیان سیٹیں نکال جائے گی مگر نادرا اور الیکشن کمیشن کے مشترکہ اشتراک سے بنایا جانے والا یہ سافٹ ویئر ناکام ہو گیایا کر دیا گیا اور اس کا اثر تحریک انصاف کے امیدواروں پر منفی پڑا ۔ میں کم از کم ایسی قومی اسمبلی کی تیس نشستوں کا ریفرنس دے سکتا ہوں جن پر سسٹم بیٹھنے سے پہلے تحریک انصاف کے امیدواران بہت لیڈ سے جیت رہے تھے پھر جب مینول رزلٹ آنا شروع ہوئے تو الیکشن کمیشن جو شدید نفسیاتی دباﺅ کے زیر اثر تھا مکمل طور پر بوکھلا گیا اور خاص طور پر ڈویژن گوجرانوالہ کے چھ اضلاع میں مسلم لیگ ن کے وہ امیدواران جو الیکٹیبل کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں وہ جائز اور ناجائز ذرائع استعمال کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان چھ اضلاع میں تحریک انصاف دس فیصد نشستیں بھی نہ حاصل کر سکی۔ کیا اس کی وجوہات کہیں یہ تو نہیں کہ اس علاقے کے لوگ زیادہ باشعور تھے یا پھر ڈویژن گوجرانوالہ

کے ان اضلاع میں تبدیلی اور نئے پاکستان کا پیغام صحیح طریقے سے پہنچ نہ سکا تھا۔ قارئین! گذشتہ الیکشن کے نتائج کے حوالے سے اگر ڈسٹرکٹ گجرات کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے بھتیجے دونوں ہی تحریک انصاف کے حمایت یافتہ تھے اور دونوں ہی اپنی اپنی سیٹوں پر جیت گئے۔ اس لیے کہ ان کے حلقوں میں کوئی ایسی چالاکی چل ہی نہ سکتی تھی جس سے مخالف امیدوار کو فائدہ پہنچتا جبکہ لالہ موسیٰ والی سیٹ پر دو سابق وفاقی وزراءقمرزمان کائرہ اور ن لیگ کے جعفر اقبال گجر دونوں امیدوار بیشمار پیسہ ،سیاسی بیک گراﺅنڈ اور لاتعداد وسائل رکھنے کے باوجود گجربرادری کے ووٹ تقسیم ہو جانے کی وجہ سے اپنی اپنی سیٹ ہار گئے جبکہ سابق ایم این اے منظور شاہ مرحوم کے بھائی فیض الحسن شاہ جنہوں نے گذشتہ الیکشن میں آزاد حیثیت میں پچپن ہزار ووٹ حاصل کیے تھے اس دفعہ پی ٹی آئی کی ٹکٹ ملنے پر انہوں نے اس سے بھی شاندار نتیجہ دیا اور یہ وہ واحد سیٹ ہے جو ڈسٹرکٹ گجرات میں پی ٹی آئی نے اپنے نام کی اور اگر پی ٹی آئی مستقبل میں ڈسٹرکٹ گجرات میں

سیاسی طور پر زندہ رہنا اور اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہتی ہے تو سید فیض الحسن شاہ کو نئی تشکیل پانے والی وفاقی کابینہ میں نمائندگی ضرور دی جائے کیونکہ شکست خوردہ دو سابق وفاقی وزراءآئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو منظر سے غائب رکھنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ یوں بھی سید فیض الحسن کو نمائندگی ملنے سے گجرات جیسے ضلع سے ووٹرز کی توقعات پوری ہوں گی۔ ضلع گجرات سے قومی اسمبلی کی چوتھی سیٹ کوٹلہ اور کھاریاں کے نواح پر مشتمل ہے جہاں تحریک انصاف کے ہی دو امیدواران چوہدری الیاس اور حنیف اعوان کی آپس میں مڈبھیڑ ہو گئی جس کا فائدہ مسلم لیگ ن کے امیدوار اور گوانتاناموبے جیل کے سابق مکین عابد رضا نے اٹھایا مگر حقائق بتاتے ہیں کہ دہشت گردی کے الزام میںجیل کاٹ کر آنے والے اور لاتعداد قتل کیسز میں سزا یافتہ عابد رضا پر چوہدری الیاس کو سبقت حاصل تھی اور الیکشن کے دوسرے دن شام تک پی ٹی آئی جیت چکی تھی مگر دوسری طرف عابد رضا مسلسل اپنی فیس بک اور سوشل میڈیا پر اپنے ووٹرز کو تسلی دے رہا تھاکہ میں آٹھ ہزار ووٹوں سے ہارا نہیں ہوں بلکہ میں آپ کو دو گھنٹے بعد فتح کی

نوید سناﺅں گا اور جو رزلٹ پہلے چوہدری الیاس کا تھا اس پر صرف امیدوار کا نام تبدیل کرکے عابد رضا لکھ دیا گیا کیا یہ سب دھونس دھاندلی اور مائیٹ از رائیٹ کے فارمولے کو آزمانے کے بغیر ممکن تھا؟ قارئین! انشاءاللہ مستقبل میں پاکستان کے دیگر اضلاع کی تجزیاتی رپورٹ نوائے وقت کے قارئین کے سامنے لائی جائیں گی مگر آج ہمیں کرنٹ سیاسی حالات پر بھی گفتگو کرنی ہے۔ نمبر گیم اور بلیم گیم کے جھگڑوں کے درمیان اس الیکشن میں شکست خوردہ ٹولے نے نتائج کو نقب لگانے کی کوشش کی اور مولانا فضل الرحمن اور مولانا سراج الحق کے علاوہ جید علماءاور درجن بھر سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو نہ جانے کیا سوجھی کہ میں ہارا تو سب ہارے کے مصداق انہوں نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی مرکزی قیادت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ گذشتہ انتخابات انجینئرڈ تھے مگر مولانا صاحبان یہ بھول گئے کہ پیپلزپارٹی جو نشستیں جیت چکی ہے وہ اس سے کم کی توقع رکھتی تھی جبکہ میاں شہبازشریف صاحب نے برملا کہہ دیا کہ اگر ہم د وبارہ الیکشن کے چکروں میں پڑ گئے تو ہم بیس سیٹیں بھی نہ جیت پائیں گے۔ یہی حال پیپلزپارٹی کا تھا۔قارئین! یہ بات

مسلم لیگ ن کے لیے باعث تقویت تھی کہ الیکشن سے صرف چند روز قبل سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے وطن واپس آنے کا غیرمتوقع طور پر اعلان کر دیا اور سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے میرا یہ یقین ہے کہ مسلم لیگ ن کو صرف اسی وجہ سے کم از کم چالیس سیٹیں غیر متوقع طور پر زیادہ مل گئی ہیں۔ یہ اور بات کہ کرنے والوں نے میاں نوازشریف کے ساتھ ہاتھ کر دیا۔ طیارہ لاہور ایئرپورٹ کے رن وے پر کھڑا تھا اور میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی جو زمینی حالات سے لاعلم تھے یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ ایئرپورٹ پر چند سو رینجرز اور پولیس اہلکاروں کے سوا اطراف میں بھی کوئی بندہ بشر موجود نہ تھا۔قارئین! میرے ساتھ بیٹھا جھورا جہاز کہہ رہا ہے کہ وڑائچ صاحب گذشتہ الیکشن کئی گھروں میں سیاسی صفِ ماتم بچھ گیا ہے۔ پیر صاحب پگاڑا ،شریف، اسفندر یار، غلام احمد بلور، آفتاب شیر پاﺅ اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سیاسی بھکاری بن کر رہ گئی ہے جبکہ اس الیکشن کی سب سے بڑی لوزر جماعت جماعت اسلامی ہے جس کے پاکستان کے ہر انتخابی حلقے میں دس سے پندرہ ہزار ووٹرز موجود ہیں مگر موجودہ الیکشن نو پارٹیوں سے اتحاد کرنے کے باوجود جماعت اسلامی اور پوری ایم ایم اے کے پورے صوبے پنجاب میں صرف ساڑھے چار لاکھ ووٹ مقدر بنے جبکہ اس کے مقابلے میں چند روز قبل وجود میں آنے والی تحریک لبیک پاکستان نے صرف پنجاب میں ساڑھے اٹھارہ لاکھ ووٹ حاصل کیے جبکہ ایم ایم اے کے پچیس لاکھ ووٹوں کے مقابلے میں تحریکِ لبیک کو ساڑھے بائیس لاکھ ووٹ ملے۔قارئین! کون وزیراعلیٰ بنے گا ؟ کون صدر اور وزیراعظم بنے گا اور کون وزیر،مشیر اور گورنر بنے گا؟ اس کا فیصلہ تو چند روز میں ہو جائے گا مگر منسٹر اینکلیو بنگلہ نمبر بائیس کو خالی کرتے وقت مولانا فضل الرحمن یقینا اداس اور رنجیدہ ہوں گے اور شاید اسی سبب گزشتہ روز ان کو کارڈیالوجی سینٹر شفٹ ہونا پڑا۔ اللہ مولانا صاحب کو صحت دے۔ آمین!۔۔

FOLLOW US