لاہور(ویب ڈیسک) پچیس جولائی کو منتخب ہونے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو 25 اگست سے پہلے پہلے نیا صدر بھی منتخب کرنا ہو گا۔پاکستان کے دستوری نظام میں صدر کا انتظامی کردار اگرچہ محدود ہے لیکن اس کی موجودگی نظام حکومت کو چلانے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ دستور کے
مطابق یہ عہدہ ایک لمحے کے لیے بھی خالی نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ دستور کے آرٹیکل اکتالیس کے مطابق صدر کے عہدے کی میعاد کے خاتمے سے زیادہ سے زیادہ ساٹھ دن پہلے یا کم ازکم تیس دن پہلے نیا صدر منتخب کیا جانا لازم ہے۔ دستور میں یہ بات بھی واضح طور پر لکھ دی گئی ہے کہ اگر اسمبلیاں موجود نہ ہوں تو پھر اسمبلیوں کے انتخابات کے تیس دن کے اندر اندر صدر کا انتخاب عمل میں آئے گا۔عام انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف قومی اسمبلی میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر تو ابھری ہے، مگر اس جماعت کی طاقت میں اتنا اضافہ نہیں ہوا کہ وہ آئندہ صدر بھی اپنی مرضی کا منتخب کر سکے کیونکہ صدر کے انتخاب میں قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا بھی کردار ہوتا ہے جہاں پاکستان تحریکِ انصاف کے پاس اراکین کی تعداد صدر منتخب کرانے کے لیے مطلوبہ تعداد سے کہیں کم ہے۔مندرجہ ذیل دیے ہوئے چارٹ کی مدد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق اس وقت مختلف اسمبلیوں اور سینیٹ میں کوئی بھی جماعت اتنی طاقتور نہیں کہ
تنہا کسی کو صدرِ پاکستان کے عہدے پر منتخب کر سکے۔اس چارٹ کی تیاری میں ہم نے دستورمیں دیے گئے فارمولے کے مطابق ہر پارٹی کے براہ راست منتخب ہونے والے اراکین کی تعداد کے ساتھ خواتین کی مخصوص نشستوں کے ساتھ ساتھ اقلیتی نشستیں بھی شامل کی ہیں۔یہ بھی واضح رہے کہ آزاد منتخب ہونے والوں کے ووٹ آزاد کے خانے میں ہی درج کیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی حتمی نوٹیفیکیشن کے بعد ہی یہ تعین ہو سکے گا کہ آزاد اراکین کون سی سیاسی جماعت اختیار کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ سینیٹ کی ایک، قومی اسمبلی کی آٹھ اور صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر چھے نشستیں خالی ہیں۔
صدارتی انتخاب کا آئینی طریقہ کار
آئین پاکستان 1973ء کا تیسرا باب پاکستان کی وفاق سازی کے مطلق ہے۔ صدر کا عہدہ شق 41 کی ذیلی ایک کی رو سے سربراہ مملکت اور وفاق کے اتحاد کی علامت ہے۔ ذیلی نمبر 2 کے مطابق جو شخص مسلمان نہ ہو، 45 سال سے کم عمر ہو صدر پاکستان نہیں بن سکتا۔ذیلی نمبر تین کے مطابق دوسرے شیڈول کے مطابق الیکٹورل کالج دونوں اعوان اور صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہو گا۔ذیلی نمبر چار کے مطابق
صدر کا الیکشن مدت ختم ہونے سے 60 دن پہلے اور مدت ختم ہونے سے 30 دن کے بعد نہیں ہو سکتا۔اگر مقررہ وقت میں الیکشن نہیں ہوتا اور قومی اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے تو عام انتخابات کے انعقاد کے 30 دن کے اندر اندرصدارتی الیکشن ہو گا۔ذیلی نمبر پانچ کے تحت صدارتی عہدہ خالی ہونے کے 30 دن کے اندر اندر صدر کا انتخاب ہونا لازمی ہے۔ اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں عام انتخابات کرانے کے تیس دن کے عرصہ میں صدر کا انتخاب ضروری ہے۔ذیلی نمبر چھ کے مطابق صدر کے انتخابات پر کسی عدالت یا ادارے میں سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
شیڈول نمبر دو
چیف الیکشن کمشنر صدر پاکستان کے الیکشن کا ذمہ دار ہو گا اور ریٹرنگ افسر ہو گا۔چیف الیکشن کمشنر نوٹیفیکیشن کے ذریعے طے کرے گا
1۔ تاریخ، وقت اور جگہ جہاں امیدواران نامزد گی جمع کرائیں گے اور کاغذات کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔
2۔ آخری تاریخ برائے واپسی کاغذات
3۔ تاریخ، وقت اور جگہ برائے ووٹنگ
ہر امیدوار اور امیدوار کے مستند ایجنٹ کو جانچ پڑتال اور امیدواران کے اوپر اعتراضات کر نے کی اجازت ہو گی۔اگر تمام امیدواران مگر ایک اپنے کاغذات واپس نہ لے تو اسے الیکشن کمشنر
کی طرف سے کامیاب قرار دے دیا جائے گا۔اگر کوئی مستند نامزد امیدوار میدان میں نہ رہے تو الیکشن کی کارروائی ازسرنو شروع سے ہو گی۔الیکشن کمشنر کی درخواست پر سپیکر دونوں اعوانوں کا اکھٹے سیشن اس جگہ طلب کریں گے جہاں پولنگ کا وقت اور تاریخ طے کیا گیا ہے۔الیکشن کمشنر پولنگ افسر تعینات کرے گا۔پولنگ خفیہ بیلٹ سے ہو گی۔الیکشن کمشنر پریذائڈنگ آفیسر کو دونوں ایوانوں کے اہل ممبران جو ووٹ دے سکتے ہیں کی لسٹ فراہم کرے گا۔بیلٹ پیپر پر امیدواران کے نام انگریزی حروف کی ترتیب سے لکھے جائیں گے۔اگر کوئی بیلٹ پیپر ووٹر سے خراب ہو جائے تو وہ اسے واپس کر کے نیا حاصل کر سکتا ہے۔ اس کا پہلا بیلٹ پیپر منسوخ کر کے دوسرا جاری کیا جائے گا۔
بیلٹ پیپر ناقابل قبول ہو گا اگر
1۔ اس پر کوئی لکھائی یا ایسا نشان ہو جس سے ووٹر کی نشاندہی ہو سکے۔
2۔ اس پر پریذائڈنگ افسر کے ابتدائی دستخط نہ ہوں۔
3۔ کسی امیدوار کے نام کے سامنے نشان نہ ہو۔
4۔ ایک سے زیادہ امیدواروں کے ناموں کے سامنے نشان لگایا گیا ہو۔پولنگ کے اختتام کے بعد پولنگ افسر امیدواروں یا اس کے مستند ایجنٹ کی موجودگی میں بیلٹ بکس کھولے گا، خالی کرے گا، گنتی کرے گا اور بیلٹ پیپرز کے اوپر کورنگ نوٹ پر لکھے گا۔
گنتی کا طریقہ کار
چیف الیکشن کمشنر پارلیمنٹ میں ہر امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کی گنتی کریگا۔ صوبائی اسمبلی میں صدارتی امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کو سب سے کم نشستیں رکھنے والی صوبائی اسمبلی کی تعداد سے ضرب دی جائے گی اور جس اسمبلی کا ووٹر ہو گا اس کی کل نشستوں کی تعداد سے تقسیم کر دیا جائے گا۔ جس کے بعد ووٹوں کی اس تعداد کو پارلیمنٹ میں حاصل ہونے والے ووٹوں میں جمع کردیا جائے گا۔اگر دو یا زیادہ امیدوار ہیں تو ان میں سے زیادہ ووٹ لینے والا جیت جائے گا۔ شق نمبر 42 کے تحت صدر پاکستان چیف جسٹس آف پاکستان سے حلف اٹھائے گا