لاہور (ویب ڈیسک) اگرچہ گزشتہ رات یہ خبر دوپہر کے اخبار کی طرح پھیلا دی گئی تھی کہ ’’علیم خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ‘‘مگر صبح جب آنکھ کھلی تو یہ خبر بھی افواہ کے زمرے میں ڈھل چکی تھی ۔جس کاغذ پر فیصلہ لکھا جانا تھا وہ ابھی تک سفید تھا ۔
قرطاس ِ فہرست پراُسی طرح پہلا نام سبطین خان کا درج تھا۔یعنی وہی اب تک سب سے آگے ہیں ۔ اُس کے بعد یاسمین راشد کا نام جگمگا رہا ہے ۔ابھی تک فواد چوہدری بھی فہرست سے باہر نہیں ہوئے۔امیدواروں کی پوٹلیاں کھول کر دیکھیں توکسی امیدوار کے پاس کوئی خبر نہیں تھی ۔میڈیاکے خیال میں آج رات تک معلوم ہوجائے گا کہ تخت ِ لاہور پر کون جلوہ نشیں ہوتا ہے مگر میرے نزدیک کل شام یعنی پانچ اگست شام چھ بجے سے پہلے یہ فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔ ابھی اِس میں کئی مشکل مقام باقی ہیں ۔سنا ہے کہ علیم خان چاہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ عارضی طور پربنا یا جائے کہ جب وہ نیب کے مقدمات سے فارغ ہوجائیں تو انہیں وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے مگر عمران خان ایسا نہیں سوچ رہے وہ کسی ایسے شخص کو پنجاب کا چیف منسٹر بنانا چاہتے ہیں جوہر طرح کے مفادات سے بلند تر ہو کر پنجاب میں کام کرے۔ جس کے دامن پر کوئی داغ نہ ہو ۔ خاص طور پر مالی کرپشن کا کوئی داغ ۔داغ تو یاسمین راشد کے دامن پر بھی کوئی نہیں ہے ۔بہر حال پنجاب کوکرپشن سے پاک کرنے کا پہلا ذمہ دار وزیر اعلیٰ پنجاب ہی ہوگا ۔اس معیار پر مکمل طور پرتو ابھی تک صرف سبطین خان ہی پورا اتر رہے ہیں۔
فواد چوہدری بھی یہ کام احسن انداز میں سر انجام دے سکتے ہیں ۔سبطین خان پر اعتراض کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم کا تعلق بھی میانوالی سے ہے اور وزیر اعلیٰ بھی میانوالی کا بنا دیا جائے یہ اچھی بات نہیں ۔دونوں ’’خان ‘‘ ہیں ۔حیرت ہے جب نواز شریف وزیر اعظم اور شہباز شریف وزیر اعلیٰ ہوتے تھے اُس وقت تو کسی کے دماغ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ ایک بھائی وزیر اعظم اور دوسرا بھائی وزیر اعلیٰ اوردونوں ’’شریف‘‘ بھی تھے ۔اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ علیم خان بھی بڑے با صلاحیت آدمی ہیں ۔پی ٹی آئی کواُن کی صلاحیتوں سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ تعمیراتی کام میں اُن کا کوئی ثانی نہیں ۔میرے خیال میں پی ٹی آئی کی حکومت نے جو پچاس لاکھ مکانات تعمیر کرنے ہیں اُن کی ذمہ داری علیم خان کو دی جانی چاہئے ۔مجھے یقین ہے کہ وہ اس ٹارگٹ کو وقت سے پہلے پوراکرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔فوری طور پر بڑے بڑے شہروں میں ایک لاکھ فلیٹ بنائے جا سکتے ہیں۔یقیناََ حکومت کو یہ کام بھی پہلے سو دنوں میں ہی شروع کرنا ہے ۔کیونکہ جیسے ہی یہ کام شروع ہوگا لوگوں کو روزگار ملنا شروع ہوجائے گا ۔
ایک کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا ٹارگٹ بھی کوئی آسان ٹارگٹ نہیں ہے ۔ پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو عہدوں سے زیادہ ٹارگٹ پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے ۔شاہ محمود قریشی اسپیکر قومی اسمبلی بننے پر راضی تو ہوگئے ہیں مگر دبے لفظوں میں انہوں نے کہا ہے کہ میں نے اِ س یقین کے ساتھ یہ عہدہ قبول کیاہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب یاسمین راشد کو بنایا جائے گااگر یاسمین راشد کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تو وہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی ایسی چیف منسٹر ہونگی جو خواتین کی مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں آئیں ۔وزیر خارجہ خسرو بختیار بنائے جارہے ہیں ۔ ان کا تعلق بھی میانوالی سے ہے مگر اُس میانوالی کو ’’میانوالی قریشیاں ‘‘ کہتے ہیں ۔یعنی کرنے والے یہ اعتراض بھی کر سکتے ہیں کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے بعد وزیر خارجہ بھی میانوالی کا ہے ۔میں نصرت جاوید کی رائے کا بہت احترام کرتا ہوں وہ سمجھتے ہیں کہ خوبرو وخوش گفتار مخدوم خسرو بختیار عمران خان کیلئے ایک اور مراد سعید ثابت ہونگے ۔نئے پاکستان کیلئے حسن نثار ،مظہر برلاس اور انوار حسین حقی کی خدمات بھی قابل تحسین ہیں۔ اُن کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ملتان سے احمد حسن ڈہیڑ اور لیہ سے عبدالمجید خان کو بھی حکومت میں شامل کیا جائے ۔عبدالمجیدخان کی وزارت سے توپھر وہی مسئلہ پیدا ہوجائے گاکیونکہ ایم این اے تو وہ لیہ سے بنے ہیں مگر ہیں میانوالی کے ۔ ہائے میانوالی۔ شاہ محمود قریشی کےا سپیکر بن جانے کے بعد ضروری ہے کہ ملتان سے بھی کسی کو منسٹر بنایا جائے اور اس کےلئے احمدحسن ڈہیڑ سے بہتر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
وزیر داخلہ پرویز خٹک بنیں گے ۔انہیں بہت زیادہ محنت کرنا ہو گی کیونکہ جہاں جہاں تبدیلیوں کی زیادہ اور جلد ضرورت ہے وہ تمام محکمےوزارتِ داخلہ کے ہیں ۔کرپشن کے خاتمے کیلئے اس وزارت کا کلید ی کردار ہے ۔یقیناً یہ وزارت پرویز خٹک کےلئے پھولوں کا تاج نہیں کانٹوں کی سیج ہے۔ ایک اور شخصیت کی طرف بھی عمران خان کی توجہ مبذول کرنا چاہوں گا ۔یہ گلریز افضل چن ہیں ۔ بہت با صلاحیت ہیں ۔اپنے بھائی ندیم افضل چن کو پیپلز پارٹی سے نکال کر یہی پی ٹی آئی میں لائے ہیں ۔یہ بھی پی ٹی آئی کی حکومت کیلئے اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔میانوالی سے امجد علی خان اور عطااللہ شادی خیل کو بھی حکومت میں شامل کیا جانا چاہئے ۔یہ دونوں شخصیات نئے پاکستان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔ خاص طور پر امجد علی خان نے ایک انٹرو یو دیا تھا کہ نئے پاکستان کے خدو خال کیسے ہونگے ۔میں نے اس وقت سوچا تھا کہ اگر نئے پاکستان کے خواب کو تعبیر مل گئی تو ہم کتنے خوش قسمت ہونگے ۔ایک سوال یہ بھی گردش کر رہا ہے کہ صدر مملکت کون ہوگا۔ جاوید ہاشمی اگر نون کے فریب میں نہ آتے تو یقیناً ممنون حسین کے بعد وہی صدر پاکستان ہوتے مگراپنی قسمت آدمی اپنے اعمال سے بناتا ہے ۔جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کا بھی کسی زمانے میں پی ٹی آئی میں بہت احترام کیا جاتا تھا اگر انہوں نے بھی عمران خان کی لیڈر شپ سے ٹکرانے کی کوشش نہ کی ہوتی تو وہ بھی صدر پاکستان ہو سکتے تھے ۔ سنا ہے اس وقت صدر پاکستان کےلئے میر بلخ شیر مزاری ، میر ظفر اللہ خان جمالی کے نام لئے جارہے ہیں۔