اسلام آباد(ویب ڈیسک) پاکستان میں 25 جولائی کے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچانے والی سیاسی جماعتیں کسی متحدہ اپوزیشن محاز یا لائحہ عمل پر اب تک متفق ہوتی دکھائی نہیں دی رہی ہیں۔دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے نئی پارلیمان میں حلف نہ اٹھانے جیسے مسئلے پر بھی
کوئی اتفاق دکھائی نہ دیا۔تو کیا یہ نئی پارلیمان میں ایک کمزور اور منقسم حزب اختلاف کے اشارے ہیں۔25 جولائی کے انتخابات کے فوراً بعد بظاہر عجلت میں اسلام آباد میں طلب کی گئی کل جماعتی کانفرنس ا ±تنی ہی جلدی بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو گئی۔ مسلم لیگ نون نے حلف نہ لینے کی تجویز کی پہلی اے پی سی میں ہی مخالفت کر دی تھی اور پیپلز پارٹی پہلے دن سے علیحدہ علیحدہ رہنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔مبصرین کے خیال میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گیم بھی ان کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دیتی ہے۔ آخر نئی ممکنہ حزب اختلاف بظاہر اتنی منقسم کیوں ہے؟معروف اینکر اور صحافی حامد میر تسلیم کرتے ہیں کہ تین بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)،، پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کے درمیان چھوٹے امور پر اختلاف موجود ہیں۔اگر آپ الیکشن ہار جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ یہ کہیں کہ آپ نے حلف نہیں لینا۔میرا خیال ہے ایم ایم اے کی تجویز کو نہ تو پیپلز پارٹی نے اور نہ ہی مسلم لیگ نے تسلیم کیا ہے۔ خود ان کی پارٹی کے اندر بھی یہ رائے ہے کہ مولانا فضل الرحمان ضمنی انتخاب لڑ
کر اسمبلی میں آئیں‘ اب وہ خود اپنی تجویز پر قائم نہیں ہیں۔شکست کے غصے میں جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک خطرناک اشارہ یہ دیا کہ وہ پارلیمان کو چلنے نہیں دیں گے جوکہ ایک غیرپارلیمانی اور غیرجمہوری بیان ہے۔مولانا دیگر جماعتوں کے تحفظات کے باوجود حلف نہ اٹھانے کی تجویز پر قائم ہیں البتہ ریاستی اداروں جیسے کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی مبینہ دھاندلی کی وضاحتیں طلب کر رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمان ایم ایم اے کے اندر کسی اختلاف کی تردید کر چکے ہیں تاہم ہمارے ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ مجلس عمل میں شامل دیگر تمام جماعتیں مولانا فضل الرحمان سے متفق نہیں ہیںاور ان کے شدت پسندانہ روئیے سے متحدہ مجلس عمل دوبارہ غیرفعال ہونے کا امکان ہے جبکہ سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نون نے لاہور میں پارٹی کو متحد رکھنے اور پارٹی میں فارورڈ بلاک بننے کی افواہوں کو رد کرنے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا، جس میں صوبائی نشستوں پر منتخب ہونے والے 129 میں سے اطلاعات کے مطابق 121 ارکان نے شرکت کی۔اس بارے میں مسلم لیگ (ن )کے رہنما رانا ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ تمام ارکان کو غیر سیاسی
قوتوں کے دباﺅ کا سامنا ہے لیکن وہ شہباز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون کے اراکین شریف بردران کے آمرانہ رویے سے بددل ہیں اور نون لیگ کے قومی وصوبائی اسمبلیکے اراکین کی ایک بڑی تعداد جلد فاروڈ بلاک بنانے کے لیے جوڑتوڑمیں مصروف ہے-واضح رہے کہ تحریک انصاف کو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے 137 نشستیں درکار ہیں جس کے لیے نمبر گیم جاری ہے۔تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں 116 نشستیں ہیں جب کہ اس کی اتحادی جماعت (ق) لیگ کی اس وقت 4 نشستیں ہیں، اسی طرح پرویز الٰہی کے اسپیکرپنجاب اسمبلی بننے کی صورت میں (ق) لیگ کو قومی اسمبلی کی دو نشستیں چھوڑنا پڑیں گی جب کہ تحریک انصاف کے چیئرمین بھی قومی اسمبلی کی 4 نشستیں چھوڑیں گے جس کے باعث پی ٹی آئی کو نمبر گیم پورا کرنے کے لیے آزاد امیدواروں سمیت دیگر جماعتوں کی حمایت درکار ہے۔اطلاعات کے مطابق اب تک قومی وپنجاب اسمبلی میں آزاد اراکین تحریک انصاف کو حمایت کی یقین دہانی کرواچکے ہیں جس سے پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے جبکہ مسلم لیگ نون کو اپنے ہی جیتے ہوئے
اراکین کو سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا ہے-دوسری جانب اپوزیشن ہم خیال جماعتوں کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں مسلم لیگ نون نے پیپلزپارٹی کو وزیراعظم کا امیدوار لانے کی پیشکش کی لیکن پیپلز پارٹی کے اراکین نے جواب دیا کہ آپ کی نشستیں زیادہ ہیں اس لیے یہ آپ کا حق ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے تجویز دی کہ احتجاج میں بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔اجلاس میں تمام جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے باہر شدید احتجاج کا فیصلہ کیا، اسلام آباد،، کراچی،، لاہور،، پشاور راولپنڈی اور کوئٹہ میں شدید احتجاج کیا جائےگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بڑے شہروں کے احتجاج میں اے پی سی میں شریک جماعتوں کی قیادت بھی شریک ہو گی۔ذرائع کے مطابق ہم خیال جماعتوں نے اتحاد کے ٹی او آرز اور فیصلوں کا اعلان جوائنٹ ایکشن کمیٹی کرے گی جو 3 روز میں ٹی او آرز طے کرے گی۔جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا پہلا اجلاس آج رات ہو گا جس میں تمام ہم خیال جماعتوں کے اراکین شامل ہوں گے۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں حلف برداری کے موقع پر اسلام آباد میں احتجاجی جلسہ منعقد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، احتجاجی جلسہ ریڈ زون کے قریب کیا جائے گا۔