اسلام آباد(نیوز ڈیسک) نئے صدر مملکت 9 ستمبر کو حلف اٹھائیں گے، صدر ممنون حسین کا عہد صدارت 8 ستمبر کوختم ہو جائیگا، ریٹائرمنٹ سے قبل ممنون حسین نئی قومی اسمبلی اورسینٹ پرمشتمل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرینگے ،سبکدوش ہونے سے قبل ممنون حسین نئی قومی اسمبلی اور سینٹ پر مشتمل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے
خطاب کرینگے،قومی اسمبلی کے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر مملکت کا پارلیمنٹ سے خطاب آئینی تقاضا ہے، نئی قومی اسمبلی کا اجلاس آئندہ ہفتے( ممکنہ 9 اگست) سے شروع ہوگا،پہلے روز نئے منتخب اراکین کی حلف برداری ہوگی، دوسرے روز سپیکر اور ڈپٹی سپیکر اور تیسرے روز نئے قائد ایوان( وزیراعظم ) کا انتخاب عمل میں لایا جائیگا جسکے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس برخاست کردیا جائیگا،نئی قومی اسمبلی کے ریگولر اجلاس کیساتھ ہی پارلیمانی سال کا آغاز ہوجائیگا، صدر ممنون حسین 8 ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں ، آئین کا آرٹیکل 41 کہتا ہے نئے صدر کا انتخاب اسکی مدت پوری ہونے سے 30 روز پہلے ہو نا ضروری ہے، یہ انتخا ب مدت پوری ہونے سے 60 روز پہلے بھی نہیں کرایا جا سکتا ،اس د و را ن عام انتخابات ہو رہے تھے، صدارتی الیکٹورل کالج یعنی قومی اور صوبائی اسمبلیاں موجود ہی نہیں تھیں، عام انتخابات ہو رہے ہوں تو آئین ایک اور آپشن دیتا ہے پولنگ کی تاریخ کے ٹھیک ایک ماہ بعد صدارتی انتخاب کرا دیا جائے اور اب یہ تاریخ 25 اگست بنتی ہے، الیکشن کمیشن کے ذرائع کہتے ہیں نئی اسمبلیاں11 اگست تک فعال نہیں ہو سکیں گی، صدر کے انتخاب کا شیڈول کم از کم 15 روز کا ہوتا ہے اور اس دوران عید الاضحیٰ کی 3 چھٹیاں بھی آرہی ہیں ، یوں نئے صدر مملکت کیلئے انتخاب اگست کے آخر یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں ممکن ہو سکے گا ۔ جبکہ دوسری جانب حالیہ انتخابات میں وجود میں آنے والی حزب اختلاف نے ایسی عددی اہمیت حاصل کرلی ہے کہ حکومت کو صدارتی انتخاب میں کانٹے کا مقابلہ ہوگا، پاکستان تحریک انصاف کے متوقع طاقت میں معمولی سا اضافہ نظر آرہا ہےاور اگر موجودہ صورتحال میں بننے والے اتحاد میں ایک بھی حلیف ٹکڑا راستہ بدلتا ہے تو پھر آنے والی حکومت کے لئے یہ مشکل ہوگا کہ وہ صدارتی انتخاب جیت سکے۔ بلاول بھٹو بوجہہ عمر کے صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکیں گے تاہم وہ وزیر اعظم کے عہدے کے طبع آزمائی کرسکتے ہیں۔ یہ بات ضرور ہے کہ اگر آصف علی زردادی اپنی پارٹی کے رہنما رضا ربانی کو صدارتی انتخاب کے لئے چنتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ نہ صرف اپنے اتحادی بلکہ حزب اختلاف سے ووٹ حاصل کرسکیں۔ سینیٹ ،قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے مجموعی ووٹر 706ہیں ۔اس طرح اکیاون فیصد یعنی 353ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار آئندہ صدر کے عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ محتاط اندازے کے مطابق حکومتی اتحاد کے پاس 365 متوقع ووٹ ہیں جبکہ حزب اختلاف کے متوقع ووٹوں کی تعداد 334ہے۔ بڑی مدد قومی اسمبلی کےعلاوہ بلوچستان اسمبلی کے ارکان جہاں ہر قانون ساز ایک ووٹ کا حامل ہےاگر ایم ایم اے حزب اختلاف کی طرف جاتی ہے تو پھر حکومت بلوچستان سے صرف دس ووٹ حاصل کرسکے گی۔ حزب اختلاف کا سینیٹ میں بڑا حصہ
ہے جہاں 68 کی تعداد کے لحاظ سے دو تہائی اکثریت موجو د بہ نسبت چھتیس ووٹوں کے۔ صوبہ پنجاب سے حزب اختلاف حزب اختلاف تیس ووٹ حاصل کرسکے گی جبکہ دوسری طرف پینتیس ووٹ۔ موجود ہ عددی لحاظ سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف قومی اسمبلی سے برابر برابر کی تعداد سے ووٹ حاصل کرسکیں گے۔ قومی اسمبلی کے ووٹوں کی تعداد تین سو بیالیس ہے سینیٹ سے ایک سو چار ووٹ جبکہ ہر صوبائی اسمبلی سے پینسٹھ ووٹ ہونگے۔ بلوچستان میں وو ٹر و ں کی تعداد پینسٹھ ہے۔ صدر پاکستان ممنون حسین آٹھ اگست کو اپنی مددت پوری کررہے ہیںاور آئین کے آرٹیکل اکتالیس کے مطابق صدر کا انتخاب ساٹھ دن سے قبل نہیں ہوسکتا اور تیس دن سے قبل نہیں ہوسکتا۔قوانین پر سختی سے عمل تو نہیں ہوسکتا کیونکہ ابھی تک ارکان قومی اسمبلی نے حلف نہیں اٹھائے اور عین ممکن ہے کہ آٹھ اگست کے بعد ممکن ہوسکے۔