پشاور (ویب ڈیسک) ملک میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں حکومت تشکیل دینے کے لیے مطلوبہ تعداد حاصل نہ کرنے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) میں اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے۔نجی ٹی وی نیوز چینل نے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیاہے کہ ن لیگ کے اندرونی ذرائع کا کہنا تھا
کہ 25 جولائی کو عام انتخابات میں خیبرپختونخوا میں شکست نے پارٹی کو مزید تقسیم کردیا اور پارٹی کے کچھ رہنما، خاص طور پر ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے رہنما صوبائی صدر امیر مقام کی کھل کر مخالفت کررہے ہیں۔اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے کچھ سرگرم کارکنوں کا کہنا تھا کہ انتخابات میں شکست نے پارٹی کی سینئر قیادت کو کافی مایوس کیا اور انہیں یہ موقع مل گیا کہ وہ پارٹی کی صوبائی قیادت کو میرٹ کی بنیاد پر ٹکٹ فراہم کرنے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنا سکیں۔یہ بات بھی سامنے آئے کہ پارٹی کے سابق صوبائی صدور پیر شبیر شاہ اور سردار مہتاب احمد خان نے بھی اس معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا لیکن وہ پارٹی کے تاحیات قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے جیل میں ہونے کی وجہ سے اس معاملے کو بڑھانا نہیں چاہتے۔ہزارہ ڈویژن میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران ہی اختلافات کی نشاندہی کی گئی تھی اور امیر مقام، کیپٹن (ر) محمد صفدر اور مرتضیٰ جاوید عباسی کی حمایت کر رہے تھے جبکہ میاں برادران کی تجویز کی مخالفت نہیں کرسکتے تھے۔ عام انتخابات میں ملک بھر سے دھاندلی کی شکایات موصول ہوئیں لیکن
اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) پنجاب اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، تاہم وہ خیبرپختونخوا میں اپنی سابقہ پوزیشن بھی کھو بیٹھی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے صوبائی اسمبلی میں 16 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ 2018 انتخابات میں ان نشستوں کی تعداد کم ہو کر 5 ہوگئی، اسی طرح خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا کے علاقوں میں ایم این اے کی تعداد 6 سے کم ہو کر 3 رہ گئی۔ذرائع نے بتایا کہ اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ لوگوں کو ایک شخص کی جانب سے تمام فیصلے کیے جانے پر تحفظات تھے کیونکہ وہ فیصلوں میں صوبائی کونسل کو اعتماد میں نہیں لے رہے تھے۔ خیبرپختونخوا کے پارٹی صدر نے صوبائی کونسل کو نظر انداز کردیا تھا اور تمام فیصلے اپنی مرضی سے کیے تھے اور باقی تمام افراد کو انتخابی مہم سے دور رکھا تھا۔