لاہور(شیر سلطان ملک ) تحریک انصاف واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں پہنچنے کی حقدار ٹہری ، دنیا بھر میں عمران خان کے ٹائیگروں کا جشن جاری ہے۔ دو ہفتوں بعد انشا اللہ وزیراعظم پاکستان عمران خان ہونگے ۔ اس وقے صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی کی
کل 115 نشستیں ہیں جن میں سے پانچ عمران خان کی جیتی ہوئی ہیں ۔ ان پانچ نشستوں میں میانوالی ، بنوں ، اسلام آباد ، لاہور اور کراچی شامل ہیں ، اب لازمی طور پر ان میں سے ایک سیٹ عمران خان کو برقرار رکھنا ہو گی اور باقی چھوڑنا ہونگی جن پر بعد میں دوبارہ الیکشن ہونگے ۔ اس وقت وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کے بعد عمران خان کے سامنے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ مذکورہ بالا پانچ حلقوں میں جیتی گئی نشستوں میں سے کون سی سیٹ پاس رکھیں اور باقی چھوڑ دیں ۔ اور اب خبریں آرہی ہیں کہ عمران خان این اے 131 لاہور والی جیتی ہوئی سیٹ چھوڑ رہے ہیں اور اس پر ولید اقبال یا ہمایوں اختر خان تحریک انصاف کے نامزد امیدوار ہونگے ۔ سینیئر صحافی اور کالم نگار فضل حسین اعوان کا کہنا ہے کہ عمران خان لازمی طور پر لاہور این اے 131 والی سیٹ چھوڑ دیں گے کیونکہ انہوں نے کئی ہفتے قبل ولید اقبال سے وعدہ کیا تھا کہ جیت کر وہ یہ نشست انکے لیے خالی کریں گے ، اسی وجہ سے ولید اقبال کو عام انتخابات میں ٹکٹ نہیں دی گئی تھی ،
کپتان کے ٹائیگر بے فکر رہیں ولید اقبال یا تحریک انصاف کا کوئی بھی امیدوار بڑے آرام سے این اے 131 کا دنگل جیت لے گا ۔ جبکہ عمران خان کے ایک دیرینہ دوست پروفیسر توفیق بٹ کے خیال میں عمران خان کو میانوالی کی سیٹ پاس رکھنی چاہیے میانوالی نے ہمیشہ ان کی لاج رکھی ۔اس لیے انہیں چاہیے کہ لاہور کی سیٹ پر کسی تگڑے امیدوار کو میدان میں لا کر محنت کرنی چاہئیے اور ان پہلوؤں پر غور کر کے ان کا تدارک کرنا چاہئیے کہ عمران خان نے یہ سیٹ نون لیگ کے اُس اُمیدوار سے اتنے کم ووٹوں سے کیوں جیتی جو سخت بدزبان اور کئی حوالوں سے بدنام ہے۔ جبکہ لاہور میں حلقہ این اے 131 کے باسیوں کی رائے کے مطابق پنجاب بالخصوص لاہور میں حالات اب بھی مسلم لیگ (ن) کے حق میں ہیں ، اگر سعد رفیق کے مقابلہ میں عمران خان صرف 600 ووٹوں کی لیڈ حاصل کر پاتے ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ سعد رفیق کے مقابلے میں ولید اقبال یا ہارون اختر تحریک انصاف کا انتخابی نشان رکھنے کے باوجود 600 ووٹوں سے ہار جائیں ۔ اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے عمران خان اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت اچھی طرح غور وفکر کر لے۔
اس ضمن میں اگر باقی جیتی ہوئی نشستوں والے حلقوں کی صورتحال دیکھی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ضلع میانوالی کے لوگوں نے ہمیشہ عمران خان کے ساتھ محبت اور وفا کی مثال قائم ہے ۔ اس بار عمران خان کے علاوہ میانوالی میں تحریک انصاف کے جتنے بھی امیدوار تھے سب کو ریکارڈ ووٹوں کے ساتھ فتح حاصل ہوئی کہیں پر بھی تحریک انصاف کی لہر کا کوئی مقابلہ نہ کر سکا ، لہٰذا اگر عمران خان یہ سیٹ چھوڑ دیتے ہیں اور عام انتخابات میں نظر انداز کیے گئے کسی رہنما کو بھی نامزد کرتے ہیں تو اسکی جیت پکی ہے ۔ میانوالی کی طرح خیبرپختونخوا کے عوام بھی عمران خان سے ایک خاص لگاؤ رکھتے ہیں لہٰذا وہاں بھی عمران خان سیٹ چھوڑ کر کسی اور کو نامزد کریں تو تحریک انصاف کی جیت پکی ہے ۔ اسلام آباد کی جیتی ہوئی سیٹ چھوڑنے کے امکانات اگرچہ کم نظر آرہے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ عمران خان اسلام آباد کی سیٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ کریں گے ۔ لیکن اگر وہ اسلام آباد والی سیٹ سے دستبردار ہوتے ہیں اور تحریک انصاف کا کوئی دبنگ سیاستدان اس سیٹ پر الیکشن میں حصہ لیتا ہے تو اسکے جیتنے کے 80 فیصد سے زائد امکانات ہیں ۔ اب بات کرتے ہیں کراچی کی جہاں کے لوگوں نے عمران خان پر گویا اندھا دھند اعتبار کیا ، کئی دہائیوں سے قائم ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا طلسم بلے نے پاش پاش کر دیا ، اب اگر عمران خان کراچی والی سیٹ چھوڑتے بھی ہیں اور اپنے نامزد امیدوار کی انتخابی مہم میں ایک شاندار پاور شو کرکے کراچی والوں کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک بار پھر بلے کو ووٹ دینے کا کہتے ہیں تو کوئی شک نہیں کہ کراچی والے پہلے سے بھی زیادہ لیڈ کے ساتھ تحریک انصاف کے امیدوار کو کامیاب کروا دیں ۔ چنانچہ عوام اور ماہرین کی رائے کو مدنظر رکھا جائے تو انکا مشورہ یہی ہے کہ عمران خان لاہور کی سیٹ نہ چھوڑیں اسکے علاوہ چاروں حلقوں سے وہ جس بھی شخص کو اپنا امیدوار نامزد کریں گے اسکی جیت کے امکانات 100 فیصد ہیں ، واللہ اعلم